وزیر اعظم نریندر مودی کا نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیا گیا انٹرویو ہو، راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کی مشترکہ پریس کانفرنس ہو، راجپوت سماج کا برسراقتدار جماعت کے خلاف غصہ ہو، جینت چودھری کا اجلاس میں شرکت نہ کرنا یا مدعو نہ کیا جانا ہو، راجستھان میں جاٹوں کی ناراضگی ہو، جنوبی ہندوستان میں روڈ شو ہو یا پرینکا گاندھی کا اتراکھنڈ میں سیاسی جلسوں سے خطاب کرنا ہو یہ سب کچھ انتخابات کے دوران عوام کو دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ سیاسی رہنما اپنے اپنے انداز میں اپنی بات سمجھانے اور مخالفین کے الزامات کو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عوام کے اوپر ہے کہ وہ اس کو کس طرح لیتے ہیں اور کس پارٹی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر تے ہیں۔
Published: undefined
عوام کو بنیادی طور پر اپنی رائے کے اظہار سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس سے جڑے مدے کون سی سیاسی پارٹی اٹھا رہی ہے اور اس کے مدوں کو حل کرنے کے لئے سیاسی جماعت کس امیدوار کو میدان میں اتار رہی ہے۔ لوگوں کو صرف اس بات پر ووٹ نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے سماج کی ایک پارٹی بے عزتی کر رہی ہے یا کوئی مذہب کی بنیاد پر ووٹ ڈال دے بلکہ ان کو اس بات پر ووٹ کرنا چاہئے کہ ان کے بچوں کے لئے روزگار دلوانے میں کون سی پارٹی سنجیدہ ہے، کون سی سیاسی پارٹی عوام کو بڑھتی مہنگائی سے راحت دلوا سکتی ہے، اس کی اور ملک کی ترقی کو کون سی سیاسی پارٹی یقینی بنا سکتی ہے اور کس سیاسی پارٹی کے پاس عوام کو بدعنوانی سے نجات دلانے کے لئے پروگرام ہے۔
Published: undefined
اگر عوام ملک اور خود کی ترقی چاہتے ہیں تو ان کو اپنی رائے کا اظہار ایسی پارٹی کے حق میں کرنا چاہئے جو اس تعلق سے سنجیدہ ہو ۔ اگر اس دور میں بھی عوام مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں تو پھر وہ اپنے اور اگلی نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ جذباتی ہو کر رائے دہندگان کو نہیں سوچنا چاہئے اور نہ ہی کسی سے نفرت کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے۔
Published: undefined
مغربی اتر پردیش کی کچھ نشستوں میں ہونے والے انتخابات میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ سماج کے کچھ طبقات ایک مخصوص پارٹی کو اس لئے ووٹ نہیں دے رہے کیونکہ ان کے طبقہ کی نمائندگی اس پارٹی نے کم کر دی ہے اور ایک طبقہ اس لئے کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دے رہا ہے کیونکہ وہ اس کی کھاپ کا ہے ۔اتر پردیش جس کو دہلی کے اقتدار کے لئے دروازہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں کی سب سے زیادہ اسی (80)نشستیں ہیں۔ ان اسی میں سے آٹھ نشستوں پر 19 اپریل یعنی پرسوں انتخابات ہونا ہے۔ ان آٹھ نشستوں پر موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کچھ تو ناراضگی طبقہ کی نمائندگی کم کرنے کی وجہ سے ہے اور کچھ کی ناراضگی اس لئے ہے کیونکہ ان کے بچوں کے مستقبل کے تعلق سے مرکزی حکومت کی پالیسیاں ان کے حق میں نہیں ہیں۔ ان علاقوں کے زیادہ تر نوجوان فوج میں جاتے تھے لیکن حکومت کی نئی اگنی ویر پالیسی کو لاگو کئے جانے کے بعد نوجوانوں کی فوج میں بھرتی کو چار سال تک کے لئے محدود کر دیا گیا ہے اور اس پالیسی کی وجہ سے خود کو ٹھگا سا محسوس کر رہے ہیں۔ اگر عوام اپنے بچوں کے مستقبل کے تعلق سے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرے تو وہ مثبت اشارہ ہے لیکن اگر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرے تو اس کو مثبت نہیں کہا جا سکتا۔
بہرحال نئی حکومت کی تشکیل کے لئے عوام کے ذریعہ رائے دینے کا عمل شروع ہونے جا رہا ہے اور عوام کو ملک اور اپنے حق میں رائے کا اظہار کرنا چاہئے نہ کہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined