پورا ملک انتخابی بخار کی زد میں ہے، کہیں رہنما اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے نظر آ رہے ہیں تو کہیں سیاسی جماعتیں کسی مسئلے کو انتخابات میں اٹھانے میں مصروف ہیں۔ چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں کسی اتحاد میں شامل ہو رہی ہیں تو کچھ پارٹیاں نئے سیاسی اتحاد تشکیل دے رہی ہیں۔ حال ہی میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے اتر پردیش میں ایک سیاسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہے، جس کی موجودہ صدر پلوی پٹیل نے اتر پردیش اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کو شکست دی تھی۔ پلوی پٹیل کی پارٹی کا ان انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد تھا۔
Published: undefined
اسد الدین اویسی کے تعلق سے یہ خبریں عام تھیں کہ وہ اس مرتبہ یعنی 2024 کے عام انتخابات میں اتر پردیش سے اپنے کسی امیدوار کو نہیں کھڑا کریں گے لیکن اب ان کا اتحاد پلوی پٹیل کی سیاسی جماعت اپنا دل (کمیراوادی) سے ہو گیا ہے اس لئے ان کے تعلق سے جو چرچا کی جا رہی تھی اس پر فل اسٹاپ لگ گیا ہے۔ اویسی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ ان کے کھڑے ہونے سے این ڈی اے اتحاد کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
Published: undefined
پلوی پٹیل نے بھی اویسی کے ساتھ اس لئے اتحاد کیا ہے کیونکہ ان کی نظر میں اویسی کے ساتھ اقلیتی طبقہ کے ووٹر ہیں یعنی اس اتحاد کا سیدھا مطلب ہے کہ پلوی پٹیل کو اقلیتی طبقہ کے رائے دہندگان چاہئیں اور اویسی کو پلوی پٹیل کی ذات کے ووٹروں کی ضرورت ہے۔ اس اتحاد کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اس سے بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ اس اتحاد نے ایک مرتبہ پھر اویسی پر لگنے والے الزامات پر لوگوں کو اس طرح کی بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
Published: undefined
اسدالدین اویسی کی جماعت کا نام کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ہے یعنی ہندوستان کی وہ سیاسی جماعت جو مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرتی ہے۔ یہ پارٹی بنیادی طور پر تلنگانہ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہے اور تلنگانہ میں 7 مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں سے نشستیں جیتنے میں کامیاب رہتی ہے۔ مسلمانوں کی وکالت کرنے والے بیرسٹر اسد الدین اویسی کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی سیاست اقلیتی طبقہ کی بات کر کے خوب چمک سکتی ہے لیکن یہ غور کرنے کی بات ہے کہ ان کی جماعت سے کیا ہندوستانی اقلیتی طبقہ کا فائدہ ہوگا یا ان کی سیاست کا؟
Published: undefined
ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر صرف اقلیتوں کی بات کرتی ہے یا خود کو اقلیت حامی پارٹی ظاہر کرتی ہے تو اس کا فائدہ ملک کی صرف اس سیاسی جماعت کو ہوتا ہے جو صرف ملک کے اکثریتی طبقہ کے نام پر سیاست کرتی ہے۔ اویسی جیسے رہنماؤں کی سیاست کی وجہ سے جس طبقہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن ان کے چند رہنماؤں کو فائدہ ضرور ہو جاتا ہے۔ اس طبقہ کے لوگ جذبات میں آ کر اپنی تعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی نمائندگی کی اور پریشر گروپ کی بات کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے یہ طبقہ اچھوت ہو جاتا ہے اور سماج میں علیحدگی کی علامت بن جاتا ہے۔
Published: undefined
حقیقت یہی ہے کہ اگر کوئی حقیقی معنوں میں اقلیتی طبقہ کا خیر خواہ ہے تو اسے اپنی سیاسی جماعت کا نام اقلیتی طبقہ سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایسا نام صرف اکثریتی طبقہ کی سیاست کرنے والوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ملک کے اقلیتی طبقہ کو چاہئے کہ وہ ملک کے آئین اور جمہوریت کے دفاع کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرے اور وہ کسی بھی طرح فرقہ پرست سیاست کا شکار نہ ہو۔ ملک اور اس اقلیتی طبقہ کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ملک اور جمہوریت کی بات ہو۔ اس لئے ایسی تمام جماعتوں سے پرہیز کرنا چاہئے جن کا نام ہی کسی طبقہ کی پہچان ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined