فرقہ وارانہ عناصر نے دورِ وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ کو ہندو-مسلم جھگڑوں کی تاریخ کی شکل میں دکھا کر قومی مفادات اور قومی اتحاد کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، اور ااج بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ویسے تو کئی مثالوں سے اس فرقہ پرستانہ جھوٹ کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے، لیکن خصوصاً دارا شکوہ کی زندگی (1659-1615) اس نظریہ سے خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
Published: undefined
دارا شکوہ شاہجہاں کے بڑے بیٹے تھے اور ان کا خاص رجحان مختلف مذاہب کے اتحاد اور خیر سگالی کے تئیں تھا۔ اپنے پردادا بادشاہ اکبر کی طرح انھیں مختلف مذاہب کے بنیادی عناصر کی یکسانیت اور اتحاد میں خصوصی دلچسپی تھی اور اس کی بنیاد پر اپنے سبھی لوگوں، خصوصاً ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد بھی قائم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے صوفی اور ویدانت کے اصولوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ فارسی اور عربی کے تو وہ عالم تھے ہی، اس مطالعہ کے لیے انھوں نے سنسکرت بھی سیکھ لی۔ بڑے بڑے صوفی سنتوں اور پنڈتوں سے مل کر انھوں نے اپنشدوں، یوگا وشسٹھ وغیرہ ہندو صحیفوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور کروایا۔
Published: undefined
تقریباً 25 سالوں تک دارا شکوہ اس طرح کے کاموں میں لگاتار لگے رہے۔ اس میں ان کی بیوی نادرہ بیگم اور سب سے زیادہ ان کی بڑی بہن جہاں آرا کا تعاون اور حوصلہ بھی انھیں ملتا رہا۔ ان 25 سالوں تک دارا شکوہ ہندو مذہب سے میل جول لگاتار بڑھاتے رہے، لیکن کیا ان کے والد شاہجہاں نے اس کی مخالفت کی؟
Published: undefined
سچائی تو یہ ہے کہ اس دوران شاہجہاں کی دارا کے تئیں محبت اور لگاؤ بڑھتی رہی اور یہاں تک کہ رسمی طور پر بھی شاہجہاں نے انھیں اپنا جانشیں قرار دے دیا۔ اس کو سبھی ہندو-مسلم سامنتوں، راجاؤں، منصب داروں نے قبول کیا۔ کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ اس دوران شاہجہاں کے بعد مغل دربار میں سب سے زیادہ طاقتور دارا شکوہ اور جہاں آرا ہی تھے۔ وہ دونوں ہندو-مسلم اتحاد اور خیر سگالی کی علامت تھے۔ یہ بات سبھی جانتے تھے لیکن کسی نے مخالفت نہیں کی۔
Published: undefined
اتنا ہی نہیں، جیسا کہ مختلف حکمرانوں کی جنگیں ہوتی رہتی ہیں، ویسے ہی شاہجہاں کے ذریعہ میواڑ اور گڑھوال کے خلاف جنگ مجوزہ تھے۔ دونوں مقامات پر ہندو راجہ تھے۔ دارا شکوہ نے اپنے والد سے بہت اچھے رشتوں کا استعمال اس طرح کیا کہ دونوں ریاستوں سے صلح سمجھوتے ہو جائیں اور کوئی بڑی جنگ نہ ہو۔ اسے بھی منظوری حاصل ہوئی۔
Published: undefined
دوسری طرف بلخ میں مسلم حکمراں کے خلاف کارروائی کرنی ضروری ہوئی تو اس کے خلاف فوج بھیجی گئی۔ فوج کی قیادت راجپوت راجہ جگت سنگھ کو سونپی گئی۔ جگت سنگھ نے کابل کو اپنا مرکز بنا کر کامیابی کے ساتھ کارروائی کی۔ اس کے بعد بھی راجپوتوں نے ازبکوں کے حملے کو ناکام کرنے میں اہم کردار نبھایا۔
Published: undefined
سبھی اشارے یہ تھے کہ شاہجہاں کے بعد دارا شکوہ حاکم بنیں گے اور ہندو-مسلم خیر سگالی مزید تیزی سے آگے بڑھے گی۔ لیکن شاہجہاں کی سنگین بیماری کا فائدہ اٹھا کر شاہجہاں کے سخت گیر بیٹے اورنگ زیب نے بغاوت کر دی۔ اب شاہجہاں اور دارا ایک طرف تھے، اور اورنگ زیب و اس کے دو بھائی مراد اور شجاع دوسری طرف۔ اس وقت اگر کچھ اہم ہندو راجاؤں نے اورنگ زیب کی حمایت کا فیصلہ نہ کیا ہوتا اور شاہجہاں/دارا سے وفاداری نبھائی ہوتی تو دارا کی فتح یقینی تھی۔ لیکن انھوں نے ان کا ساتھ نہ دے کر اورنگ زیب کی حمایت کرنے کا فیصلہ لیا۔
Published: undefined
ہندو عوام اس سے خوش نہیں تھی، لیکن راجہ اپنے مفاد حاصل کر رہے تھے۔ اس کا احساس اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک ہندو راجہ جب دارا شکوہ کا ساتھ چھوڑ کر اپنے قلعہ میں واپس لوٹا تو اس کی اپنی رانی نے قلعہ کا دروازہ اس کے لیے بند کروا دیا۔
Published: undefined
ایسا کیوں ہوا؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں راجہ اور سامنت مذہب کی بنیاد پر فیصلے نہ لے کر فوری مفادات پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ اس سے یہ مزید واضح ہوتا ہے کہ اس وقت کی جنگیں ہندو-مسلم جنگیں نہیں تھیں، بلکہ مختلف بادشاہوں کے اپنے اپنے مفادات اور منافع کی بنیاد پر کی گئی جنگیں تھیں۔
Published: undefined
خیر، جانشیں کی جنگ میں ہندو-مسلم اتحاد کے حامی دارا شکوہ کی شکست سے ایک اہم باب کا خاتمہ ہو گیا، لیکن ہندوستانی باشندے اتحاد و خیر سگالی کی علامت دارا شکوہ کو ہمیشہ یدا رکھیں گے۔ کئی مورخین مانتے ہیں کہ اگر شاہجہاں کے بعد دارا شکوہ مغل حکمراں بنے ہوتے تو آپسی اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کی تاریخ بدل سکتی تھی، لیکن جو نہ ہو سکا اس کے بارے میں کیا کہا جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined