کیا مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے؟ کیا فلسطینیوں کا خون ناحق رنگ لا رہا ہے؟ کیا الله نے ظالم کی رسی کو ڈھیل دینا روک دیا ہے؟ امریکہ کے صدارتی الیکشن کا اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے اور اسرائیل کے اندرونی حالات کو سہی معنوں میں سمجھا جائے تو ان تمام سوالوں کا جواب ’ہاں‘ میں ملے گا۔ سبکدوش ہو رہے امریکی صدر جو بائڈن نے جس طرح غزہ پر اسرائیلی حملہ اور وہاں ہوئی نسل کشی کی حمایت کی، جس طرح ان انسانیت سوز مظالم کی پشت پناہی کی، اس کی خود امریکہ میں بھی زبردست مخالفت ہوئی۔ اس کے بعد ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کی شکست یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ کملا ہیرس نے ابتدائی مرحلہ میں اسرائیلی مظالم کی مخالفت کی لیکن بعد میں یہودی لابی کے دباؤ میں اپنا موقف بدل دیا۔ اس سے ڈیموکریٹک پارٹی کے روایتی مسلم ووٹرس ان سے بھڑک گئے اور بادل نخواستہ ٹرمپ کو ووٹ دیا جنہوں نے جنگ بندی کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ امریکی جمہوریت کی تاریخ میں شاید پہلی بار وہاں کے انتخابات پر یہودی کے بجائے مسلم لابی اثر انداز ہوئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل میں نیتن یاہو کی مخالفت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے گھر کے باہر مظاہرے ہو رہے ہیں، کئی عوامی جلسوں میں انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔ ان کا وزیر دفاع گیلان کھل کر ان کی مخالفت کر رہا ہے جس کی وجہ سے نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں انہیں کابینہ سے الگ کر دیا۔ یہی نہیں اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ کو سرعام عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ان سے مار پیٹ تک کی نوبت آ گئی تھی۔
Published: undefined
اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے وزیر اعظم نیتن یاہو کو ہی اسرائیل کا اصل دشمن قرار دیا ہے۔ امریکی خبر رساں ایجنسی سی این این نے ان کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اپنی احمقانہ حرکتوں سے نیتن یاہو نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اصل معنوں میں ایران، حزب اللہ، حماس سے بھی بڑے اسرائیل کے دشمن ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ میں حماس کے پاس یرغمال اسرائیلی شہریوں کو فراموش کر دینے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے ان اسرائیلی شہریوں کو حماس کے قبضہ سے رہائی دلانے کی کوششوں کو ترک کر دیا ہے، ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ادھر غزہ اور لبنان میں اسرائیل کے اہداف پورے نہ ہونے سے بھی اسرائیلی عوام نیتن یاہو سے بدظن ہیں اور اسرائیل کے اندر ان کے خلاف زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کو یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے اہل خاندان نے اس وقت نیتن یاہو کے سامنے ہی مظاہرہ شروع کر دیا جب وہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ مظاہرین ’نیتن یاہو شرم کرو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اتنا ہی نہیں اطلاعات کے مطابق سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں نے جنگ میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے۔
Published: undefined
دراصل نیتن یاہو نے عالمی عدالت اور اسرائیلی عدالت سے بچنے کے لئے نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو آگ اور خون کے ایسے دریا میں دھکیل دیا ہے جس سے نکل پانا اب ناممکن نہیں تو مشکل ضرور دکھائی دے رہا ہے۔ یہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی، فی الحال نہ کسی کے پاس اس کا کوئی جواب ہے نہ ہی کوئی حل ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جس مقصد سے نیتن یاہو نے یہ احمقانہ اور ظالمانہ جنگی کارروائی شروع کی تھی ان میں سے کوئی ایک مقصد وہ نہیں حاصل کر پائے ہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے ہٹلر، مسولینی، اسٹالن اور پول پوٹ کی صف میں خود کو کھڑا کر لیا ہے۔ ساٹھ ستر ہزار بے گناہوں کا خون ناحق اس کی گردن پر ہے۔ اس نے اسماعیل ہانیہ یحییٰ السنوار اور حسن نصراللہ کو شہید تو کر دیا مگر کیا حماس اور حزب اللہ کی تحریک اور فلسطین کی جنگ آزادی ختم ہو گئی۔ انہوں نے ایران کو ہر طرح سے جھکانے ڈرانے کی بھی کوشش کی لیکن ایرانیوں کی کج کلاہی جوں کی توں ہے، الٹے وہ خود ساری دنیا میں تھو تھو کا شکار ہو رہا ہے۔ ساری دنیا میں اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سوچئے جنگ کے دوران جس ملک کے وزیر اعظم کے خلاف وہاں کے عوام مظاہرہ کر رہے ہوں وہ اپنے ہی ملک میں کتنا ناپسندیدہ شخص ہوگا اور وہاں کی فوج کا حوصلہ کتنا ٹوٹا ہوا ہوگا۔ نتن یاہو جانتے ہیں کہ جس دن جنگ بندی ہوگی اسی دن ان کی کرسی تو چلی ہی جائے گی۔ ان کا کیا انجام ہوگا وہ سوچ بھی نہیں پائیں گے۔
Published: undefined
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کی اس احمقانہ مہم جوئی سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ سب سے پہلے تو حماس نے اس کے اندر گھس کر اسے جو ضرب لگائی اس سے وہ بلبلا اٹھا اور حماس کا قلع قمع کرنے کے لئے غزہ پر بموں کی بارش کر کے سب کچھ تباہ کر دیا اسپتالوں اور راحت کیمپوں تک پر بم برسائے۔ ساٹھ ستر ہزار عورتوں، بوڑھوں، بچوں تک کو موت کے گھاٹ اتار دیا، مگر اپنے ایک سو سے زیادہ یرغمال شہریوں کو رہا نہیں کرا پایا۔ اس کے بعد حزب اللہ حوثی نے تو اس کو چاروں طرف سے گھیر کے چپت لگانا شروع کر دیا۔ ان ملیشیاؤں کے ہزاروں ڈالر کے ڈرون اسرائیل کے اربوں ڈالر کے ہوائی جہازوں پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کے مالی نقصان کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اگر امریکہ اور یہودی لابی سے اسے کھربوں ڈالر کی امداد نہ مل رہی ہوتی تو اسرائیل اب تک دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ پھر بھی وہاں کے شہریوں کو اب بھی، اور جنگ بندی کے بعد تو مزید شدت سے مالی بحران کا احساس تو کرنا ہی پڑے گا۔ اسرائیل اپنے جس آئرن ڈوم کو ناقابل تسخیر سمجھتا تھا، اس کی اصلیت بھی دنیا کے سامنے اجاگر ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتن یاہو نے اسرائیل کو اب جتنا غیر محفوظ کر دیا ہے اتنا وہ اپنی تاریخ میں کبھی نہیں رہا۔ ان حالات میں اگر سابق وزیر اعظم اولمرٹ نیتن یاہو کی احمقانہ اور ظالمانہ پالیسی کی تنقید کرتے ہیں اور انھیں اسرآئیل کا دشمن قرار دیتے ہیں تو کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے ہیں۔ ان کی جرأت اور حق پسندی کی تعریف کی جانی چاہئے۔
Published: undefined
لیکن نیتن یاہو جب تک برسر اقتدار ہے اس کا شیطانی کھیل جاری رہے گا، جس کی تازہ ترین مثال اقوام متحدہ کی راحت رساں ایجنسی انروا پر پابندی لگانے کا اس کا فیصلہ ہے۔ یہ ایجنسی مغربی کنارہ مشرقی قدس، غزہ، اردن، لبنان اور شام میں میں مقیم قریب ساٹھ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی لائف لائن ہے کیونکہ اسی کی توسط سے اقوام متحدہ ان فلسطینیوں کی راحت رسانی کے علاوہ ان کی صحت، تعلیم اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو گزشتہ قریب ایک صدی سے ان منتشر کیمپوں میں مقیم ہیں اس امید سے کہ ایک دن ان کا ملک آزاد ہوگا اور وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا مار کر ان کی نسل کو ختم کر دینے کے جس شیطانی منصوبہ پر صیہونی کام کر رہے ہیں، انروا پر لگائی جانے والے پابندی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اصل میں انروا راحت رسانی تو کرتی ہی تھی، اس کا سب سے بڑا کارنامہ تھا کہ وہ ان خانہ بدوش بے یار و مددگار فلسطینیوں میں امید کی کرن بھی جگائے رکھتی تھی۔ یہی بات صیہونیوں کو قبول نہیں ہے۔ ہٹلر کی نسل کشی کا شکار ہو چکے یہودیوں کا ایک طبقہ خود ہٹلر کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ لیکن اپنی ظالمانہ کارروائیوں کی وجہ سے ساری دنیا میں تھو تھو کا شکار اسرائیل انروا پر پابندی عائد کر کے خود عالمی برادری میں نکو بن گیا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ وہاں کے عوام اسرائیل سے سخت ناراض ہیں، یہاں تک کہ امریکی خاندان کا ایک ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہوا تھا کہ جیسے ہی نیتن یاہو کا چہرہ اسکرین پر آیا، ایک خاتوں اس پر جوتے مارنے لگیں جبکہ کچھ دیر بعد ایک لڑکا اٹھا اور اس نے ہاکی سے ٹی وی کا اسکرین توڑ دیا۔ عوام میں اتنی نفرت اور غصّہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی پوری ڈھیٹائی اور بے حیائی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ دراصل فلسطینیوں کی نسل کشی کا اصل مجرم تو امریکہ ہی ہے۔ وہ فلسطینیوں کے ساتھ وہی کرنا چاہتا ہے جو اس نے خود امریکہ کے اصل باشندوں، یعنی ریڈ انڈینس کے ساتھ کیا تھا۔ صیہونیوں کو اس نے اپنا مہرہ بنا لیا ہے اور عرب حکمرانوں کی غیرت و حمیت خرید لی ہے۔
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
بس یہاں پر ترکمان کی جگہ ایران لکھ یا پڑھ دیجئے اور علامہ اقبال کے اس شعر کی معنویت خود عیاں ہو جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined