مودی حکومت کو قاعدے قانون معلوم ہیں،اسے یہ پتہ ہے کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے پروموشن کے لیے سپریم کورٹ کالجیم کی سفارشوں پر اسے حکم جاری کرنا ہی ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ سات مہینے سے مودی حکومت سپریم کورٹ کالجیم کی اس سفارش کو دبائے رہی جس میں جسٹس کے ایم جوسف کی سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے جنوری میں سفارش کی گئی۔
جمعہ کو بھی جب جسٹس جوسف کی تقرری کا پروانہ جاری ہوا تو حکومت نے یہ یقینی بنایا کہ جسٹس جوسف، جسٹس اندرا اور جسٹس ونیت سرن سے جونیئر رہیں گے۔ جسٹس جوسف کی تقرری میں حکومت نے ہائی کورٹ ججوں کی سینئرٹی کی فہرست کو استعمال کیا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جسے اس سے پہلے کبھی نہیں اختیار کیا گیا تھا۔
مودی حکومت نے کالجیم کی سفارش کو یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ ہائی کورٹ ججوں کی آل انڈیا سینئرٹی فہرست میں جسٹس جوسف 42ویں مقام پر آتے ہیں اور جسٹس بنرجی و جسٹس سرن سے جونیئر ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب چیف جسٹس دیپک مشرا کو تقرری دی گئی تھی تو اس وقت وہ کئی ہائی کورٹ ججوں سے جونیئر تھے۔ ان میں حال ہی میں سبکدوش ہوئے جسٹس جے چیلامیشور بھی تھے۔ اس سے پہلے سابق چیف جسٹس پی سداشیوم تو کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تک تھے جب انھیں سپریم کورٹ میں جج بنایا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ججوں کی سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے صرف سینئرٹی ہی واحد اہلیت نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے تک تو حکومت سینئرٹی کو نظر انداز کرتی رہی تھی لیکن جب جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن کے ساتھ ہی جسٹس جوسف کی تقرری کی بات آئی تو اسے اچانک سینئرٹی کیوں یاد آ گئی؟ اور اب ایسا ک رہی دیا ہے تو کیا مستقبل میں بھی اسے اختیار کیا جائے گا؟ تقرری کی عمر کے حساب سے جسٹس کے ایم جوسف جون 2023 تک سپریم کورٹ میں جج رہیں گے کیونکہ سپریم کورٹ ججوں کی سبکدوشی کی عمر 65 سال ہے۔
روایت یہ رہی ہے کہ سپریم کورٹ کالجیم مختلف ہائی کورٹ کے اہم ججوں کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کرتا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ تو سپریم کورٹ میں تقرری سے پہلے صرف چند مہینوں کے لیے ہی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ لیکن جسٹس کے ایم جوسف تو اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے جولائی 2014 سے چیف جسٹس رہے ہیں۔ جسٹس اندرا بنرجی مدراس ہائی کورٹ کی مارچ 2017 سے اور جسٹس سرن اڈیشہ ہائی کورٹ کے 2016 سے چیف جسٹس تھے۔
Published: undefined
اس طرح دیکھا جائے تو جسٹس کے ایم جوسف کسی بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مقابلے کہیں طویل مدت تک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور اس ناطے وہ جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن سے سینئر ہوئے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ کالجیم نے جسٹس جوسف کے نام کی سفارش باقی ججوں سے کہیں پہلے کی تھی۔ لیکن حکومت نے تقرری کا پروانہ جاری کرتے وقت ان سب کو نظر انداز کر دیا۔
واضح ہو گیا ہے کہ جسٹس جوسف کی تقرری میں حکومت نے صرف اس لیے تاخیر کی کیونکہ وہ انھیں جسٹس بنرجی اور جسٹس سرن سے جونیئر ثابت کرنا چاہتی تھی۔ حالانکہ ان دونوں کو ہی کالجیم نے جنوری میں اس وقت تقرری کے لیے مناسب نہیں پایا تھا جب اس نے جنوری میں پہلی بار جسٹس جوسف کی تقرری کی سفارش کی تھی۔
یہ بھی صاف ہے کہ اگر جنوری میں ہی جسٹس جوسف کی تقرری ہو گئی ہوتی تو بھی وہ سینئرٹی کے مطابق سی جے آئی نہیں بن سکتے تھے۔ پھر بھی ان کی تقرری کے ایشو پر حکومت کی سات مہینے تک خاموشی سے کئی سوال تو کھڑے ہوئے ہی تھے۔ اور اب ان سوالوں کو مضبوطی اس سے ملتی ہے کہ حکومت نے ان کی تقرری میں سینئرٹی کے ضابطوں کا استعمال کیا ہے۔ اس سے حکومت کی منشا پر شبہ ہوتا ہے۔
جنوری میں جب سپریم کورٹ کالجیم نے جسٹس جوسف کے نام کی سفارش کی تھی تو کہا تھا کہ ’’وہ کسی بھی دوسرے ہائی کورٹ چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کے مقابلے زیادہ قابل اور مناسب ہیں‘‘ اس لیے انھیں سپریم کورٹ میں تقرری دی جائے۔
بتایا جاا ہے کہ جسٹس جوسف کے نام کی 2016 میں بھی کالجیم نے سفارش کی تھی۔ اس وقت سی جے آئی ٹی ایس ٹھاکر تھے۔ لیکن حکومت نے اسے خارج کر دیا تھا۔ جسٹس ٹھاکر نے صحت سے متعلق اسباب کی بنا پر جسٹس کے ایم جوسف کو حیدر آباد منتقل کرنے کی بھی سفارش کی تھی لیکن حکومت اس سفارش پر بھی دو سال تک فیصلہ نہیں لے پائی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined