مجھے ملک کے ووٹروں کی سست روی پر ہمیشہ حیرانی ہوتی ہے، جو ’ترقی‘ کی آڑ میں حکومت کے ذریعہ ماحولیات کی لوٹ برداشت کرتے رہتے ہیں، لیکن اسے انتخابی ایشو نہیں بناتے۔ حالانکہ ہماچل کے حالیہ اسمبلی انتخاب، جس میں کانگریس نے جیت درج کی، میں مجھے امید کی شمعیں دکھائی دیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں واٹر پاور پروجیکٹ، بے وجہ سڑک کی چوڑائی، زیادہ ہوائی اڈے، غیر مستحکم شہری منصوبہ بندی، جنگلوں کی کٹائی، بار بار پانی کی کمی جیسے ماحولیات سے متعلق ایشوز انتخاب میں بھی اثردار رہے اور انھوں نے ووٹنگ پیٹرن کو متاثر بھی کیا۔
Published: undefined
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو ریاست کے قدرتی ماحول کے لیے ایک ایجنڈا تیار کرنا چاہیے اور اسے فاسٹ ٹریک پر رکھنا چاہیے۔ غالباً اس کے لیے ایک مشیر کو مقرر کرنا ٹھیک ہوگا۔ آئیے ان موضوعات پر بات کرتے ہیں کہ نئے سال میں حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔ خاص طور سے ایسے چار نکات ہیں۔
Published: undefined
1. اندھا دھند تعمیر/سڑکوں کی چوڑائی بڑھانا بند ہو:
ہماچل میں بڑی تعداد میں آتی گاڑیاں تباہ کر رہی ہیں اور چار لین کی سڑکیں ریاست میں مزید گاڑیوں کے آنے کا راستہ ہموار کر اس عمل کو تیز کرنے والی ہیں۔ میں یہ پڑھ کر دہل گیا کہ ایک ہی دن (26 دسمبر 2022) کو 10 ہزار گاڑیوں نے اٹل ٹنل کو پار کیا۔ جبکہ پورے سال کے لیے یہ تعداد 12.73 لاکھ تھی۔ کرسمس کے دن 13 ہزار گاڑیاں شملہ پہنچیں۔
Published: undefined
جس کسی نے بھی اٹل ٹنل کے دونوں طرف کی اچھی آب و ہوا اور شملہ میں ٹریفک جام کو دیکھا ہے، وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کے پہنچنے کا کیا نتیجہ ہونے والا ہے۔ ظاہر ہے اس سے زیادہ کاربن کا اخراج ہوگا، پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پلاسٹک کا استعمال ہوگا، اور اسی تناسب میں کچرا بھی نکلے گا۔ زیادہ لوگ آئیں گے تو پہاڑوں کے صاف ماحول کو زیادہ حوائج ضروریہ کا بھی سامنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی زیادہ لوگوں کے پہنچنے سے ریاست کے نظامِ قانون پر بھی بوجھ بڑھے گا۔ ان سب منفی اثرات کا اشارہ ملنا اور ریاست کے لوگوں پر ان کا اثر نظر آنا شروع بھی ہو گیا ہے۔
Published: undefined
ہماچل پردیش میں کم از کم ایک درجن ’فور لین پروجیکٹ‘ کی منظوری مل چکی ہے اور ان کے تجزیہ کی ضرورت ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کا فوری جو اثر ہونے والا ہے، وہ یہ کہ بڑے پیمانے پر زمین کا حصول کرنا ہوگا، ہزاروں کنبوں کو وہاں سے منتقل کرنا ہوگا، پہاڑوں کا سینہ چیڑنا پڑے گا، درختوں و پودوں کو کاٹنا ہوگا اور اس طرح کی سرگرمیوں کا فطری اثر یہ ہوگا کہ زمین کھسکنے اور پہاڑوں میں شگاف پڑنے کے واقعات بڑھیں گے اور اس کے ملبہ سے وادی کی سطح اونچی ہوتی جائے گی جس سے بارش میں ندی کی آبی سطح اوپر اٹھے گی اور اس طرح کٹان والا علاقہ بھی بڑھے گا۔ اس کے علاوہ آبی ذرائع بھی آلودہ ہوں گے۔
Published: undefined
تقریباً 10 سال پہلے شروع ہوئے پروانو-شملہ فور لین پروجیکٹ ابھی نصف ہی تیار ہوئے ہیں اور ابھی سے اس علاقے میں لگاتار زمین دھنسنے کا اندیشہ بن گیا ہے۔ پروانو سے شملہ جانے میں اب بھی تین گھنٹے لگتے ہیں، تو بھلا سڑک کی چوڑائی کا کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ جب یہ پورا ہو جائے گا تو مزید گاڑیوں کو آنے کا راستہ ہموار ہوگا۔ ابھی دیکھا جائے تو حالات یہ ہیں کہ سیاحتی سیزن میں پورا شہر ایک بے ترتیب پارکنگ جیسا بن جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ اس بھیڑ بھاڑ کو متوجہ کرنے کے لیے 17 ہزار سے زیادہ درخت کاٹے گئے تھے۔ اثر یہ ہے کہ اس سڑک کے سبھی شہروں دھرم پور، سولن، کنڈا گھاٹ، شوگھی، کیتھلی گھاٹ کی آلودگی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کو مرکزی وزیر برائے ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کی اس صلاح کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ ہماچل کو سڑکوں کی جگہ ’روپ وے‘ بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور انھیں ریاست کے محدود وسائل کو ریل نیٹورک پر خرچ کرنا چاہیے۔ گڈکری نے سکھو کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 120 سال پرانی کانگڑا وادی ریلوے (پٹھان کوٹ-جوگندر نگر) کی 75 کلومیٹر لمبی لائن کو میٹر یا براڈ گیج میں بدلنے سے اس کی شروعات کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
ہماچل میں سڑک راستہ سے ہر سال تقریباً ایک کروڑ سیاح پہنچتے ہیں۔ کانگڑا وادی ریلوے (کے وی آر) نظر انداز پڑی ہوئی ہے اور حکومتوں نے تو اسے جیسے تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے، جبکہ اس میں ہزاروں گاڑیوں کو آنے سے روکنے کی صلاحیت ہے۔ منڈی تک لائن کی توسیع کی جانی چاہیے اور اسے کیرت پور/بلاس پور سے منالی تک مجوزہ لائن سے جوڑا جانا چاہیے۔ اگر یہ کر لیا جاتا ہے تو ان 4 لین سڑکوں کی ضرورت ہی نہیں ہوگی جو ہماچل کے لوگوں کی زندگی اور ان کی روزی روٹی کے لیے خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔
Published: undefined
2. منڈی ہوائی اڈہ پروجیکٹ سے باز آئیں:
منڈی میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنانے کے بے کار پروجیکٹ کو فوراً روک دیا جانا چاہیے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں اور وادی کے لوگ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر اس پروجیکٹ پر آگے بڑھتے ہیں تو یہ ریاست کے وسائل کو ختم کر دے گی۔ صرف اراضی حصول میں 2000 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ ریاست کے موجودہ تین ہوائی اڈے 50 فیصد صلاحیت سے بھی کم پر کام کر رہے ہیں اور مشکل سے 1 فیصد سیاح ہوائی راستہ سے آتے ہیں۔
Published: undefined
اس کی سماجی اور ماحولیاتی لاگت بھی بہت زیادہ ہے۔ آٹھ گاؤں میں 12000 زرعی کنبے ہجرت کو مجبور ہوں گے، ہماچل کی سب سے زرخیز زمین کا 350 ہیکٹیئر علاقہ کنکریٹ میں تبدیل ہو جائے گا، جنگلوں کی کٹائی اور مخلوقاتی تنوع کا نقصان ہوگا وہ الگ۔ اس سے تو اچھا یہ ہے کہ موجودہ ہوائی اڈوں کو ہی اَپ گریڈ کریں۔
Published: undefined
3. ایس ڈی پی 2041 کو چھوڑیں:
ایس ڈی پی (شمولہ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ) تباہ ناک، غیر دور اندیش اور غیر سائنسی منصوبہ ہے۔ این جی ٹی نے پہلے ہی اس پر روک لگا رکھی ہے۔ اسے فوراً رد کیا جانا چاہیے اور این جی ٹی کے حکم کے خلاف جو اپیل کی گئی ہے، اسے واپس لیا جانا چاہیے۔ شملہ کے محفوظ گرین بیلٹ، کور ایریا اور ہیریٹج زون میں تعمیر اور شہر کے باقی حصوں میں پانچ منزلہ عمارت بنانے کی اجازت دے کر ایس ڈی پی-41 سائنس و شہری منصوبہ بندی کا مذاق بنا رہا ہے اور لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اس سے نو آبادیاتی دور کے اس شہر کی ہریالی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور اس کا ازالہ کبھی نہیں کیا جا سکے گا۔ اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ سے وزیر اعلیٰ کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جس طرح وہ تاریخی شہر دھنس رہا ہے، 700 سے زیادہ گھروں میں رہنے والوں کو وہاں سے منتقل کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی جوشی مٹھ کے آس پاس کے 8 گاؤں کے بھی دھنسنے کی رپورٹ آ رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کو ان باتوں کا دھیان رکھ کر آنے والی آفت کو ٹالنا چاہیے۔
Published: undefined
زمین دھنسنے یا زلزلہ کی حالت میں 6500 فٹ اونچے ریج پر واقع شملہ کے لیے نتائج مزید بھیانک ہوں گے۔ ایک اسٹڈی کا اندازہ ہے کہ 39 فیصد عمارتیں منہدم ہو جائیں گی اور تقریباً 40000 لوگ مارے جائیں گے۔ میں نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت وہیں گزارا ہے اور اس لحاظ سے مجھے لگتا ہے کہ یہ تعداد کم ہے، اس حالت میں کہیں زیادہ لوگوں کی جان جائے گی۔ شہر کو بھیڑ بھاڑ، زیادہ ٹریفک سے بچانے اور کچرے و آلودگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں نئی تعمیر کو تو روکنا چاہیے ہی، یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ پرانی تعمیرات کو کیسے ہٹائیں۔
Published: undefined
4. واٹر پاور پروجیکٹس پر روک:
واٹر پاور پروجیکٹ معاملے میں ریاست اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ یہاں سے یہ معاملہ گھٹتے رقبہ اور بڑھتی ماحولیات و سماجی لاگت کا ہونے جا رہا ہے۔ 24 ہزار میگاواٹ کے اپنے ہدف میں سے ریاست پہلے ہی تقریباً 13 ہزار میگاواٹ پروجیکٹ کو شروع کر چکی ہے اور 5 ہزار میگاواٹ کا منصوبہ پائپ لائن میں ہے۔ بقیہ 6 ہزار میگاواٹ کا منصوبہ کنور، لاہول اسپیتی، چندربھاگا بیسن، پاربتی گھاٹی جیسے نازک پیرا گلیشیل علاقوں میں ہیں اور سنگین ماحولیاتی نقصان کے بغیر ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
Published: undefined
ان علاقوں میں بے وجہ ان سرگرمیوں کی مقامی لوگ سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ شمسی توانائی کی گرتی لاگت کے ساتھ ایسے واٹر پاور پروجیکٹس اب معاشی نظریہ سے بھی مناسب نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں ایک درجن سے زیادہ واٹر پاور پروجیکٹس کو سرینڈر کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کو واٹر پاور پروجیکٹس کے ماحولیاتی اثرات پر سابق ایڈیشنل چیف سکریٹری (جنگلات) کی 2010 کی اس رپورٹ پر غور کرنا چاہیے جس کی ہائی کورٹ نے بھی تعریف کی تھی۔ ہماچل میں آئی مختلف حکومتوں نے اس رپورٹ کو دھول کھانے دینا مناسب سمجھا۔
Published: undefined
مذکورہ بالا نکات کے علاوہ بھی کئی کام کرنے ہوں گے، مثلاً آبی تحفظ، جنگلاتی علاقوں میں چیک ڈیم اور جنگلاتی تالاب کی تعمیر، روایتی کہلوں کی از سر نو تعمیر، سیاحوں کی تعداد کا ریگولیشن، بڑھتے کچرے کے ڈھیر کا نمٹان، ندی سطح پر غیر قانونی کانکنی کو روکنا۔
Published: undefined
ہماچل پردیش خوش قسمت رہا ہے کہ وہ اب تک قدرت کے غصے سے موٹے طور پر بچا رہا ہے۔ لیکن ایسے حالات ہمیشہ نہیں رہنے والے اور وہ دور شاید بہت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایک مشہور ماہر ارضیات نے پہلے ہی آگاہ کر رکھا ہے کہ میکلائڈ گنج اور دھرمشالہ-میکلائڈ گنج اہم سڑک کے کئی علاقے دھنسنے کی علامت پیش کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور ان کے مشیروں کو اتراکھنڈ پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ نہ صرف جوشی مٹھ بلکہ نینی تال، چمپاوت، کرن پریاگ اور اتر کاشی بھی بے قابو تعمیر کا سامنا کر رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined