ہندوستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر مجھے بہت فکر ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں ایک شاندار تنوع والا ہندوستان ایک تاناشاہ ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے۔ ہمارے تمام جمہوری اداروں کو تہس نہس کر دیا گیا ہے، ان کی تنظیمی خود مختاری کو بے حد کمزور کر دیا گیا ہے، شہری سماج کمزور ہو گیا ہے، قدیم داستانیں سائنس پر بھاری پڑ رہی ہیں، میڈیا اقتدار میں بیٹھی پارٹی کا ترجمان بن گیا ہے۔
Published: undefined
سوشل میڈیا کو بھی اپوزیشن لیڈروں پر ذاتی حملے کرنے، جھوٹ پھیلانے اور نفرت کو ہوا دینے کے لیے اوزار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ طبقات کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور آبادی کا بڑا حصہ سرکاری خوف میں زندگی گزار رہا ہے۔ مرکزی جانچ ایجنسیاں حکومت کے پسندیدہ اسلحے بن گئے ہیں جو سیاسی مخالفین اور عدم اتفاق کرنے والوں کو قابو کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
ایسے ماحول میں برسراقتدار پارٹی کو ووٹ نہیں کرنے والے 60 فیصد لوگ تذبذب میں ہیں کہ کیسے رد عمل دیں، کس طرح پہیہ کو واپس گھمائیں۔ کس طرح ہندوستان اپنی خوشحال وراثت کو واپس پاتے ہوئے پھر سے مشترکہ سماج بنے اور کیسے سب کے لیے مواقع اور خوشحالی کے ادھورے وعدے کو پورا کرے۔ صرف جمہوریت کی بہتر وسعت کے ذریعہ ہندوستان اپنے لوگوں کے لیے امن، تحفظ یقینی کر سکتا ہے، ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے اور روزگار، کاروبار، عوامی بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو بڑھا سکتا ہے۔ تبھی سب کے لیے کھانا، صحت اور رہائش کا انتظام ممکن ہے۔
Published: undefined
جمہوریت اس کام کی طرح ہے جو ہمیشہ چلتا رہتا ہے اور اسے بنائے رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ہم اپنی جمہوریت اور آئین کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کریں؟
پہلا قدم ہے اپنے ووٹ کی قیمت کو پہچاننا اور اسے دانشمندی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ اس ’ہندوستان کے نظریہ‘ کے لیے استعمال کرنا جس میں آپ کو یقین ہے اور جسے آپ اپنی آنے والی نسل کو دینا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ’جن اقدار پر آپ یقین کرتے ہیں‘ ان کے لیے ووٹنگ کرنا، نہ کہ کسی شخص یا پارٹی کے لیے۔ کاص طور پر ویسی پارٹی کے لیے تو بالکل نہیں جو نفرت پھیلاتی ہے اور لوگوں کو تقسیم کر، ان سے جھوٹے وعدے کر کے پھلتی پھولتی ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت ’چوراہے‘ پر ہے اور صرف حساس طریقے سے ووٹ کر کے ہی اسے واپس پٹری پر لایا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
زبان کھولیں اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ایسا کرنا بے حد ضرور ہے، پیغام کو دوستوں، متعلقین اور مقامی طبقات میں پھیلائیں۔ گھر گھر جائیں، کالج و بازار جائیں، سڑک پر اتریں اور جہاں بھی ممکن ہو لوگوں سے ملاقات کریں، کیونکہ عوام کے درمیان جانے سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ لوگوں کو آزاد طریقے سے سوچنے اور واٹس ایپ کے پیغامات کو بغیر سوچے سمجھے فاروارڈ کرنے یا ٹی وی پر پھیلائی جا رہی غلط تشہیر پر یقین کرنے کی جگہ خود سچ کو جاننے کے لیے تیار کریں۔ لوگوں کو صبر اور کھلے پن کے ساتھ سنیں اور لوگوں کی آنکھوں میں سچائی، ہمدردی، تکلیف اور ان کی سچائی کو پڑھنا سیکھیں۔
Published: undefined
طبقات کی فکر کرنے والے اور ہندوستان میں جمہوری نظریہ والے ایک اہل، تعلیم یافتہ اور سمجھدار مقامی امیدوار کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اپنے وقت، توانائی اور وسائل سے اس کی مدد کریں۔ آپ جیسی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا ذریعہ بنیں، اس میں ایک سرگرم شراکت دار بنیں۔ ہم میں سے سبھی کے پاس اثر ڈالنے کی صلاحیت ہے، اس لیے اپنی طاقت کو کم مت سمجھیں۔ چیلنج کو قبول کریں اور اس اہم وقت کی ضرورت پر دھیان دیں۔ آپ کے ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔
(سیم پترودا انجینئر اور صنعت کار ہیں۔ وہ راجیو گاندھی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے سائنٹفک ایڈوائزر تھے۔ انھیں ملک میں مواصلاتی انقلاب کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined