آج کے ایسے وقت میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم شہری ہیں، رعایا نہیں۔
فرق ایک دلیل پر مبنی ہے: ہم پر بادشاہت نہیں کی جا رہی ہے، ہم صرف حکومت کے زیر اثر ہیں۔ ووٹ دینے کے علاوہ ہمارے پاس جو حق ہے، وہ ہے ہمارے بنیادی حقوق، اور اپنی بات کہنے کے ساتھ ساتھ اسے پھیلانے کے لیے اس پر زور دیا جانا چاہیے۔ اس حق کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ نظامِ انصاف سے جڑنا ہمارا حق ہے۔ اس کا استعمال کام کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ بنانے اور جہاں تہاں اس کی لاپروائیاں روکنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
شہری سماج کو اتنا منظم ہونا چاہیے کہ سیکولرزم اور کثرت پسندی سے دور جانے کی حالت میں حکومت پر اس کا دباؤ بنا رہے۔ ہمارے ملک میں حکومت کی آئین پرستی میں بہت کم دلچسپی رہ گئی ہے۔ اس کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو تو اعزاز نہیں ہی بخشا جاتا ہے، بلکہ دوسری طرف عدلیہ اور نظام غلط و عموماً مجرمانہ سلوک کے لیے بھی سزا نہیں دیتے ہیں۔
Published: undefined
مثال کے لیے حکومت فرضی معاملوں سے سماجی کارکنوں کو پریشان کر سکتی ہے اور اس طرح پھنسانے والوں کے خلاف کوئی سزا کی کارروائی نہیں ہوگی۔ غلط حراست، زیادہ طاقت کا استعمال، استحصال اور ریاست کے ذریعہ بری سوچ پر مبنی کارروائی جیسی چیزوں کے لیے بھی کوئی سزا نہیں ہوتی ہے۔ شہری سماج کو چاہیے کہ ریاست کو آئین پرستی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے لیے دباؤ بنائے۔ ہمیں یہ یقینی کرنا ہوگا کہ جہاں ریاست اور اس کے ایجنٹ قانون یا آئین کی قدروں کو توڑتے مروڑتے ہیں، انھیں اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، واپس بلایا جائے گا۔
Published: undefined
یہ کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں، کوئی بات نہیں۔ ساختیاتی تبدیلی کے لیے بنیاد پر تعمیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوشش نازک لیکن ضروری سرمایہ کاری ہے۔ نتائج آئیں گے۔ ہمیں آئینی مقام دیا ہی اسی لیے گیا ہے۔ بھلے ہی وقت کے ساتھ اس پر سنگین پابندی لگا دی گئی ہو، پھر بھی ابھی تک یہ موجود ہے۔ جگہ کو اس طرح مختص کرنے کی ضرورت ہے جیسا اب تک نہیں ہوا، اور خاص طور سے شہری متوسط طبقہ کے ذریعہ نہیں کیا گیا ہے۔
Published: undefined
اس کی توسیع کرنی ہوگی۔ ہمیں ’مناسب پابندیوں‘ کے لیے لڑنا ہوگا، انھیں سلجھانا ہوگا اور بنیادی حقوق کے صحیح معنی سامنے لانے ہوں گے۔ حقوق پر ترقی لازمی ہے۔ تاریخ ترقی پسندوں کے ساتھ ہے: مستقبل بھی ہمارے ساتھ ہے۔ قدامت پسند ایک ایسا ماضی محفوظ کرنا چاہتے ہیں جسے بنائے رکھنا ممکن نہیں ہے۔ تبدیلی لازمی اور مستحکم ہے، اور اخلاقی کائنات کا چکر شخصی حقوق اور وقار پر ترقی کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارا کام انصاف کی سمت میں اپنے راستہ پر تیزی سے آگے بڑھنا ہے۔
(آکار پٹیل صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ 2015 سے 2019 تک ہندوستان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے چیف رہے ہیں۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined