فکر و خیالات

ارے میں تو پھنس گیا اڈانی امبانی کے چکر میں...سہیل انجم

ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس الزام کا اڈانی اور امبانی پر کیا اثر پڑا یا بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر اس پر کیسا ردعمل رہا۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ مودی جی اس الزام کے بعد بری طرح پھنس گئے

<div class="paragraphs"><p>وزیر اعظم مودی / آئی اے این ایس</p></div>

وزیر اعظم مودی / آئی اے این ایس

 
IANS

سیاست بھی کیا خوب چیز ہے۔ اگر مہربان ہو تو کامیابی کی دیوی چرنوں میں لوٹتی ہے۔ اگر ناراض ہو جائے تو اپنے دوست بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ سیاست کب کیا رخ اختیار کر لے کہا نہیں جا سکتا۔ جن ملکوں میں جمہوریت ہے یعنی انتخابات کے ذریعے حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں وہاں کی سیاست تو اور بھی کھیل تماشے دکھاتی ہے۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کسی دن اڈانی اور امبانی پر کالا دھن رکھنے اور ان کے مخالفین کو سپلائی کرنے کا الزام عاید کر دیں گے۔ ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن مخالفین اور بالخصوص کانگریس کی سیاست سے پریشان مودی جی نے ایسا بیان دے دیا جس کی کسی نے توقع بھی نہیں کی تھی۔

Published: undefined

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیان کے بعد وہ خود چپ ہو گئے۔ ان کی پارٹی بی جے پی کو بھی چپی لگ گئی۔ ورنہ وہ جو بھی بیان دیتے ہیں یا مخالفین پر جو بھی الزام لگاتے ہیں بی جے پی کے دوسرے رہنما بھی اسی کو دوہرانے لگتے ہیں۔ لیکن انھوں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ خود بھی اس کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کی پارٹی اور پارٹی کے لیڈران بھی نہیں ہیں۔ بلکہ اس بیان یا الزام کے بعد وہ کانگریس کے نشانے پر مزید آ گئے ہیں اور اس طرح پھنس گئے ہیں کہ عالم تصور میں یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ارے میں کہا ں اڈانی امبانی کے چکر میں پھنس گیا۔

Published: undefined

یہ تو قارئین جانتے ہیں کہ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی برسوں سے نریندر مودی پر یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ انھوں نے اپنے دوستوں گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر بھی یہ بات کہتے رہے ہیں اور باہر بھی۔ وزیر اعظم اس الزام سے پریشان تو رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔ بالآخر ایک منصوبے کے تحت انھیں ان کے ایک بے ضرر سے بیان پر پھنسایا گیا۔ ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا اور پھر عدالت نے انھیں اتنی سزا سنا دی کہ ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت چلی گئی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ راہل پارلیمنٹ میں اڈانی امبانی نہ کر سکیں۔ لیکن بہرحال سپریم کورٹ کی مداخلت پر ان کی رکنیت بحال ہوئی۔

Published: undefined

اڈانی سے متعلق بے شمار سوالات کرنے پر ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کو بھی پھنسایا گیا۔ ان کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے گئے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں جتنے سوالات کیے تھے ان میں اکثریت اڈانی سے متعلق تھے۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو راہل گاندھی کو چپ کرایا جا سکا اور نہ ہی مہوا موئترا کو۔ اسی درمیان پارلیمانی انتخابات شروع ہو گئے۔ اپنی انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم مودی کانگریس کے انتخابی منشور میں ایسی ایسی باتیں نکالنے لگے جو منشور میں ہیں ہی نہیں۔ کانگریس پر بے سر پیر کے الزامات لگانے لگے۔ کبھی کہا کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے تو کبھی کہا کہ کانگریس ہندوؤں کی دولت چھین کر مسلمانوں کو یعنی گھس پیٹھیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دے دے گی۔

Published: undefined

کبھی کہا گیا کہ کانگریس کی نظر ماؤں بہنوں کے منگل سوتر پر ہے۔ کبھی کہا گیا کہ کانگریس ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی۔ پاکستان کے ایک سابق وزیر چودھری فواد حسین نے اپنی ایک ٹوئٹ میں راہل گاندھی کی تعریف اورمودی پر تنقید کر دی بس پھر کیا تھا کہا جانے لگا کہ پاکستان ہندوستان میں کانگریس کی حکومت بنوانا چاہتا ہے۔ لیکن جب کانگریس کے رہنما اور خاص طور پر راہل گاندھی ان کے جال میں نہیں پھنسے تو انھوں نے اپنی دانست میں ایسا تیر چھوڑا جو انتخابی مہابھارت کے اس ابھیمنیو کو چھید کر رکھ دے گا۔ لیکن ہوا اس کا بالکل الٹا۔ وہ تیر لوٹ کر خود انہی کو لگ گیا۔ لیکن جو تکلیف پہنچی اس کا اظہار کرنے کی پوزیشن میں وہ نہیں رہے۔

Published: undefined

قارئین کو تو معلوم ہی ہوگا کہ نریند رمودی نے ایک انتخابی جلسے میں راہل گاندھی پر الزام عاید کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ ابھی تک اڈانی امبانی رٹتے رہے ہیں لیکن جب سے الیکشن شروع ہوا ہے انھوں نے ان دونوں کا نام لینا بند کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات سرے سے غلط تھی۔ وہ بار بار ان کے نام لیتے رہے ہیں۔ مودی نے سوال کیا کہ کیا اڈانی اور امبانی کے یہاں سے ٹیمپو میں بھر بھر کر اور بوریوں میں بھر بھر کر کالا دھن کانگریس کے پاس پہنچا ہے کیا؟ کیوں راہل گاندھی ان دونوں کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ لیکن بعد میں ان کو احساس ہوا کہ ارے انھوں نے کیا کہہ دیا۔ کیسا الزام لگا دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے اس الزام کو کانگریس نے پکڑ لیا اور سوال کیا جانے لگا کہ کیا اڈانی اور امبانی مودی کو ٹیمپو میں بھر بھر کر کالا دھن دیتے رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے بڑا تلخ سوال کیا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا وہ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔

Published: undefined

انھوں نے اور کانگریس کے دوسرے لیڈروں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ مودی جی اڈانی اور امبانی کے گھر ای ڈی اور سی بی آئی بھیجیں اور اس کی جانچ کروائیں کہ کیا ان دونوں کے پاس کالا دھن ہے۔ اس سلسلے میں خوب مذاق بھی اڑایا جانے لگا۔ ایک کارٹون تو بہت عمدہ نظر سے گزرا۔ کارٹون میں اڈانی ٹیمپو چلا رہے ہیں اور ان کے برابر میں امبانی بیٹھے ہیں۔ پیچھے کالے دھن کی بوریاں رکھی ہوئی ہیں۔ اڈانی مودی کو فون کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ کیا انھوں نے غلط ایڈریس دے دیا ہے کیا؟۔ اس الزام پر مبصرین نے بھی خوب چٹکی لی اور تجزیہ کاروں نے بھی۔ لیکن اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ نہ تو مودی اس بیان کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں آئے نہ ہی بی جے پی کا کوئی لیڈر۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے وہ لیڈر بھی جو مودی کے بیانات اور الزامات کو دوہراتے رہے ہیں وہ بھی خاموش ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا کہ مودی کے اس الزام کے بعد اڈانی کے نیوز چینل این ڈی ٹی وی پر مودی کے خلاف رپورٹ چلائی گئی۔

Published: undefined

بہرحال ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اس الزام کا اڈانی اور امبانی پر کیا اثر پڑا یا بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر اس پر کیسا ردعمل رہا۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ مودی جی اس الزام کے بعد بری طرح پھنس گئے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہے ہوں گے کہ کیا کہہ دیا اور یہی جملہ دوہراتے ہوں کہ ارے اڈانی اور امبانی ہم تو آپ دونوں کے چکر میں پھنس گئے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined