فکر و خیالات

ہریانہ اسمبلی انتخابات: رجحان و روایات کانگریس کے حق میں

ہریانہ میں یکم اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور 4 اکتوبر کو نتائج آئیں گے۔ ریاست میں گزشتہ دو میعادوں سے بی جے پی کی حکومت ہے، مگر اس بار امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کانگریس اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے

<div class="paragraphs"><p>تصاویر آئی اے این ایس</p></div>

تصاویر آئی اے این ایس

 

ہریانہ اسمبلی الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے۔ یکم اکتوبر کو وہاں ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ 4 اکتوبر کو نتائج آئیں گے۔ گو کہ اس ریاست میں گزشتہ دو میعادوں سے بی جے پی کی حکومت ہے، مگر اس بار یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہاں کانگریس اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے۔ کئی باتیں ہیں جو یہاں کانگریس کی واپسی کے امکان کو یقینی بناتی ہیں، جن میں سے دو اہم وجوہات کسانوں کی ناراضگی اور بی جے پی کا داخلی انتشار ہیں۔

Published: undefined

ریاست میں اپریل و مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے نتائج بی جے پی کے خلاف رہے۔ بی جے پی نے 2019 میں ریاست کی کل 10 لوک سبھا سیٹوں میں سے 10 پر جیت حاصل کی تھی، مگر 2024 میں اسے نصف کا نقصان ہوا۔ کانگریس، جسے 2019 میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی، اس نے بی جے پی سے 5 سیٹیں چھین لیں۔ اس تناظر میں اسمبلی انتخابات کا تجزیہ کریں تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں ریاست کی کل 90 سیٹوں میں سے 50 سے زائد سیٹوں پر کانگریس کامیاب ہو سکتی ہے۔

Published: undefined

اس امکان کی توثیق لوک سبھا انتخابات میں ووٹ شیئر سے بھی ہوتی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 58 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ کانگریس کے حصے میں 28.42 فیصد ہی ووٹ آئے تھے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں تقریباً نصف کا فرق تھا۔ مگر پانچ سال بعد 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں میں 12 فیصد کی کمی آئی اور کانگریس کو گزشتہ بار سے 18 فیصد زائد ووٹ ملے۔ بی جے پی کو 46.11 فیصد اور کانگریس کو 47.62 فیصد ووٹ ملے۔ یعنی جس ووٹ فیصد میں پانچ سال قبل نصف کا تفاوت تھا، وہ 2024 میں برابر ہو گیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی کے خلاف عوامی ناراضگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

Published: undefined

اسی کے ساتھ اگر 2014 اور 2019 کے اسمبلی انتخابات پر بھی ایک نظر ڈال لیں تو ریاست کا عوامی رجحان مزید واضح ہو جاتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کو 47 سیٹیں ملیں جبکہ انڈین نیشنل لوک دل یعنی آئی این ایل ڈی کو 19 سیٹیں، کانگریس کو 15 سیٹیں، ہریانہ جن ہت کانگریس کو 2، بی ایس پی اور اکالی دل کو ایک ایک سیٹ ملی اور 5 سیٹوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ کل 90 سیٹوں میں سے نصف سے زیادہ سیٹیں جیت کر بی جے پی نے حکومت بنائی اور منوہر لال کھٹر نے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔

Published: undefined

مگر 2019 میں صورت حال میں بڑی تبدیلی آئی۔ 2019 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی 47 سے کھسک کر 40 پر آ گئی، جبکہ کانگریس نے بڑی جست لگاتے ہوئے اپنی سابقہ سیٹوں میں 16 کا اضافہ کرتے ہوئے 31 سیٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ ایک سال قبل یعنی دسمبر 2018 میں آئی این ایل ڈی سے علاحدہ ہو کر وجود میں آئی جن نائک جنتا پارٹی (جے جے پی) نے 10 سیٹیں حاصل کیں۔ آئی این ایل ڈی کو ایک سیٹ ملی اور آزاد امیدواروں نے 7 سیٹیں حاصل کیں۔ اس الیکشن میں بی جے پی کی سیٹوں کی کمی اور کانگریس کی سیٹوں میں اضافے کی وجوہات میں سے حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی اور کانگریس کی بڑھتی مقبولیت اہم وجہ رہی۔

Published: undefined

2019 کے بعد سے ریاست میں بڑھتی کانگریس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کا بڑا ثبوت حالیہ لوک سبھا الیکشن کے نتائج ہیں، جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ لیکن اس مقبولیت کا اندازہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی امیدواری حاصل کرنے کے خواہشمندوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ 10 اگست 2024 تک پارٹی کو 90 سیٹوں کے لیے 2556 درخواستیں مل چکی تھیں۔ ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینئر لیڈر بھُوپندر سنگھ ہڈا نے امیدواری کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد کو کانگریس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی علامت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں درخواستوں کا مطلب یہ ہے کہ ہریانہ کے لوگ کانگریس کی حکومت منتخب کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

Published: undefined

ان فیکٹرس کے علاوہ ایک اور بڑا فیکٹر ریاست کی سیاسی روایت بھی ہے۔ جس طرح راجستھان کی یہ روایت ہے کہ وہاں کے لوگ عام طور پر ہر پانچ سال بعد حکومت تبدیل کر دیتے ہیں، اسی طرح ہریانہ میں کوئی بھی حکومت عام طور پر تیسری مدت حاصل نہیں کرتی۔ بی جے پی ریاست میں 2014 سے اقتدار پر قابض ہے، مگر دوسری مدت میں اس کی طاقت کم ہو گئی تھی۔ ایسی صورت میں جب پورے ہریانہ کے کسان بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومتوں کے خلاف مسلسل بر سرِ احتجاج ہیں، خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ و ان کے ساتھیوں کے ساتھ حکومت کے رویے کے خلاف لوگوں میں زبردست غصہ ہے، تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 4 اکتوبر کو آنے والے ریاستی اسمبلی کے نتائج کیا ہوں گے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined