گڈّو میں تم کو ماریہ زبیری کیسے لکھوں۔ ویسے تو سارا ہندوستان تم کو ماریہ زبیری کے نام سے یاد کر رہا ہے۔ لیکن تم نے جب سے آنکھیں کھولیں میں نے تو تم کو گڈو ہی پکارا۔ ایک میں کیا سارا گھر بلکہ سارا خاندان تم کو گڈو ہی جانتا اور کہتا تھا۔ بیٹا تم کو انگلی پکڑ کر چلایا، گود میں کھلایا۔ یاد ہے تم لکھنؤ میڈیکل کالج میں بہت بچپن میں ایک بڑے آپریشن کے لیے گئی تھیں۔ ہم لوگ بے چینی سے تمہاری واپسی کا انتظار الٰہ آباد میں کر رہے تھے۔ ان دنوں تو موبائل فون بھی نہیں تھے۔ عموماً ہر گھر میں لینڈ لائن فون بھی نہیں ہوتے تھے۔ بھاگ بھاگ کر ہم اوپر تمھاری خیریت پوچھنے جاتے تھے۔ جب تم کوئی پندرہ دن بعد آپریشن کروا کر لوٹیں تو ہم سب حیرت میں پڑ گئے۔ تم بچی تھیں، آپریشن بہت بڑا تھا، تم کو بے حد تکلیف رہی ہوگی۔ ہم کو یہ خیال تھا کہ تم تکلیف سے بے چین ہوگی، گھڑی گھڑی روتی ہوگی۔ لیکن بیٹا تم نے تو مسکرا کر بتایا ظفر چاچا ٹھیک ہوں۔
گڈو تم پیدائش سے ہی بہادر تھیں۔ تب ہی تو انتہائی بہادری سے تم نے ہنستے ہنستے کمسنی میں اتنا بڑا آپریشن جھیل لیا۔ بیٹا تم دیکھتے دیکھتے کھیلنے اور دوڑنے لگیں۔ وہ نیچے کے صحن میں دوڑنا اور کبھی کبھی حوض میں نہانا۔ وہ تمہارے معصوم قہقہے، چوٹ لگے تو کبھی کبھار رو دینا۔ پھر جلد ہی وہ چھوٹی چھوٹی اسکرٹ اور ٹائی میں اسکول جانے کا سفر۔ وہ تمھارا بھولاپن۔ پھر جلد ہی پڑھائی کی ذمہ داری کا احساس۔ بیٹا یہ تمہاری ننھی ننھی باتیں، وہ تمہاری معصوم شرارتیں سب بھول گئے تھے۔ لیکن تم نے ایسا جھنجھوڑا کہ سب ایک ایک کر کے یاد آ رہی ہیں۔
کیا کیا یاد دلاؤں گڈو! میں الٰہ آباد سے پڑھائی پوری کر کے دہلی نوکری کے لیے آ گیا۔ تم نے ادھر اسکول پورا کیا۔ جلد ہی پتہ چلا تم فلائنگ ٹریننگ کے لیے چلی گئیں۔ ہم جب جب الٰہ آباد جاتے تم فلائنگ کے لیے اپنی اکیڈمی میں ہوتیں۔ ہماری تمہاری ملاقاتیں کم ہوتیں گئیں۔ بیٹا، یہ زندگی بہت بیہودہ شے ہے۔ اس کا اپنا بندھا ٹکا ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ یہ سب سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے اور پھر ہر انسان کو وہ اپنے روزی روٹی کے سائیکل میں ایسا جکڑتی ہے کہ انسان اپنی زندگی بھول کر روزی روٹی کا ہو لیتا ہے۔ اس کے دن رات اس کے نہیں، اس کے روزگار کے مرہون منت ہو جاتے ہیں۔ ہم دونوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ تم فلائنگ میں ڈوب گئیں اور مجھ کو صحافت نے جکڑ لیا۔
گڈو! تم کچھ دنوں کے لیے دہلی فلائنگ کلب میں شاید دو ہفتے کا کورس کرنے آئیں۔ ان دنوں بہت دنوں بعد ہم پھر ساتھ رہے۔ تم کتنا خوش تھیں۔ تمہارا کورس ختم ہو رہا تھا۔ جلد ہی تم باقاعدہ پائلٹ بننے والی تھیں۔ ارے تم تو ہواؤں سے باتیں کر رہی تھیں۔ وہ چھوٹی سی گڈو اب باقاعدہ ماریہ زبیری پائلٹ ہو رہی تھی۔ تمہاری ہر بات سے خوشی ٹپکتی تھی اور بھلا تم خوش کیوں نہ ہوتیں! تم نے تو وہ کمال کیا تھا جو شاید اس وقت تک کسی مسلمان لڑکی نے نہیں کیا تھا۔ میرے خیال میں تم پہلی مسلم لڑکی تھیں جو پرائیویٹ فلائنگ کورس کر باقاعدہ جہاز اڑا رہی تھیں۔ بیٹا تم نے اپنے ماں باپ ہی نہیں، سارے خاندان کی گردنیں اونچیں کر دی تھیں۔ تم ہی نہیں تمہاری کامیابی پر ہم سب دیوانہ وار خوش تھے۔
لیکن تم دہلی سے گئیں تو پھر ملاقاتیں عنقا ہوتی چلی گئیں۔ جلد ہی تم نے ممبئی میں فلائنگ کمپنی جوائن کر لی۔ پھر وہی زندگی کا ایک نیا پڑاؤ۔ تمہاری شادی، تمہاری شادی میں نہ شرکت کرنے کا قلق، پھر تم ماں ہو گئیں۔ سنا تمہاری بیٹی نے ابھی چند ہفتوں قبل دسواں تمہاری طرح بہت اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ ساری خبر ہمیں ملتی رہیں۔ ایک آدھ بار الٰہ آباد میں ملاقات بھی رہی۔ لیکن ہم دونوں زندگی کے ڈھرّے میں بندھے ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔
لیکن گڈو تم نے پھر جھنجھوڑ کر خود اپنے کو ایسا یاد دلایا کہ اب تم کو بھلائے نہیں بھلایا جا رہا ہے۔ بیٹا مجھ کو لکھتے ہوئے اب چالیس برس ہونے کو آ رہے ہیں، لیکن میں لکھتے لکھتے کبھی رویا نہیں۔ آج آنسو نہیں رک رہے، لکھوں کیسے۔ یہ کیا کیا گڈو تم نے! بیٹا جب موسم اتنا خراب تھا کہ جہاز اڑ نہیں سکتا تھا تو تم جہاز اڑانے پر راضی کیوں ہو گئیں۔ اور وہ بھی اتنا پرانا اور خراب جہاز۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ تمہاری کمپنی نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو جان بوجھ کر موت کے منھ میں جھونک دیا۔
بیٹا بس میں اس منحوس روز آفس سے نکلنے والا تھا کہ خبر ملی کہ ممبئی میں ایک جہاز گر گیا۔ اب پائلٹ کا نام دیکھا تو ماریہ زبیری۔ دل دھک ہو کر رہ گیا۔ ارے یہ اپنی گڈو تو نہیں۔ بس سیکنڈوں میں احمر کے فون نے تائید کر دی۔ وہ وقت اور یہ وقت، نہ یقین آتا ہے اور نہ چین آتا ہے۔ تمہارے پاپا (جن کو ہم لوگ سدّو بھائی کہتے ہیں) نے یہ بھی بتا دیا کہ تم دفن ہو گئیں۔ بیٹا تم دفن کیسے ہو سکتی ہو، تم تو ہواؤں میں اڑتی ہو۔ نہیں تم مریں نہیں، تم تو اڑ کر آسمانوں میں چلی گئیں اور وہاں سے ہم سب کو روتا دیکھ کر ہنستی ہوگی۔
Published: undefined
لیکن گڈو ہمارے آنسو تو رک جائیں گے۔ ہم پھر زندگی کی تگ و دو میں ڈوب جائیں گے۔ زندگی کی سائیکل ہم کو پھر نگل جائے گی۔ تم بہت یاد آؤ گی۔ لیکن یہ آنسو جو ابھی نہیں رکتے کچھ دنوں میں خشک ہو جائیں گے۔ لیکن بیٹا مجھے ایک بات نہیں سمجھ میں آ رہی اور وہ یہ کہ میں سدّو بھائی (تمہارے باپ) اور فریدہ بھابھی (تمہاری ماں) کا سامنا کیسے کروں گا!
گڈّو بس ایک بار لوٹ آؤ۔ مجھ کو صرف اتنا سمجھا دو کہ میں تمہارے ماں باپ کا سامنا کیسے کروں! بیٹا اتنا سمجھا دو اور بس پھر اڑ کر واپس آسمانوں میں واپس چلی جانا۔ اڑنا تو تمہاری زندگی ہے۔ مگر بیٹا ہم سب نے سوچا بھی نہ تھا کہ تم ہم سب سے پہلے اڑ کر ہمیشہ کے لیے آسمانوں کا سفر باندھ لو گی۔ خیر تم گئیں، لیکن ایک بار تو واپس آؤ گی نہ! بیٹا تم نہ لوٹیں تو تمہاری یہ یاد یں زندگی جہنم بنا دے گی۔
خدا حافظ
تمھارا ظفر چاچا
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز