پارلیمنٹ کی ایتھکس کمیٹی یعنی ’کمیٹی برائے اخلاقیت‘ کی جانب سے ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کو ایوان سے معطل کرنے کی سفارش نے ایک بار پھر حکومت کے دوہرے رویے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جہاں حکمراں جماعت بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کی بی ایس پی کے رکن دانش علی او ران کی آڑ میں تمام مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے خلاف تادم تحریر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے وہیں مہوا کے خلاف آناً فاناً میں معطلی کی سفارش کر دی گئی۔ اگر یہ سفارش مان لی جاتی ہے تو کسی یتھکس کمیٹی کی جانب سے کسی ایم پی کو معطل کرنے کی یہ پہلی کارروائی ہوگی۔
Published: undefined
مہوا موئترا پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک کاروباری درشن ہیرانندانی سے فائدے اٹھائے۔ ان سے تحائف لیے اور ان سے رقوم حاصل کیں۔ اور ان سب کے عوض انھوں نے پارلیمنٹ میں سوالات پوچھے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے ہیرانندانی کو پارلیمنٹ کے اپنے اکاؤنٹ کی لاگ ان فراہم کی جس کے بعد انھوں نے براہ راست سوالات داخل کیے۔ مبصرین کے مطابق اگر سوالات بے ضرر ہوتے تو کوئی بات نہیں ہوتی۔ تب نہ تو مہوا پر کیش لے کر سوال پوچھنے کا الزام لگتا اور نہ ہی ان کا معاملہ کمیٹی برائے اخلاقیت کو سونپا جاتا۔ لیکن چونکہ ان کے 63 میں سے 50 سوالات گوتم اڈانی سے متعلق تھے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کر دی گئی۔ لاگ ان فراہم کرنے کے بارے میں مہوا کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی ضابطہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
Published: undefined
اس سلسلے میں کمیٹی کی میٹنگ کی کارروائی کے دوران مہوا کے خلاف چھ اور ان کے حق میں چار ووٹ پڑے اور اس طرح کمیٹی نے پانچ سو صفحات کی ایک رپورٹ تیار کی اور مہوا کو معطل کیے جانے کی سفارش کے ساتھ اسے لوک سبھا کے اسپیکر کے پاس بھیج دیا۔ ضابطے کے مطابق لوک سبھا کے اگلے اجلاس کے دوران وہ رپورٹ پیش کی جائے گی اور اس پر بحث ہوگی۔ بحث کے بعد اگر رپورٹ منظور کر لی گئی تو مہوا کو معطل کر دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک نادر مثال ہوگی۔
Published: undefined
مہوا نے کمیٹی سے مطالبہ کیا تھا کہ انھیں جرح کرنے کا حق دیا جائے۔ لیکن یہ حق انھیں نہیں دیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ درشن ہیرانندانی اور سپریم کورٹ کے وکیل جے اننت کو بھی طلب کیا جائے لیکن یہ مطالبہ بھی مسترد کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے مہوا پر الزام لگاتے ہوئے جے اننت کے خط کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا انھوں نے اس بارے میں ثبوت دیے ہیں۔ اس طرح ان کو بھی طلب کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ان کو نہیں بلایا گیا۔ جہاں تک ہیرا نندانی کا معاملہ ہے تو جب یہ معاملہ اچھلا تو انھوں نے دو حلف نامے داخل کرکے اقرار کر لیا کہ مہوا نے ان سے فائدے اٹھائے ہیں۔ لیکن جب ان سے جرح کا موقع آیا تو ان کو بلایا ہی نہیں گیا۔
Published: undefined
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے کمیٹی کی کارروائی اور اس کے طریقہئ کار پر اعتراض کیا ہے۔ کمیٹی کے ایک رکن دانش علی کا کہنا ہے کہ منٹوں میں کارروائی مکمل کر لی گئی۔ انھوں نے کمیٹی کے چیئرمین اور بی جے پی ایم پی ونود سونکر پر کمیٹی کی رپورٹ کو لیک کرنے کا الزام لگایا۔ ٹی ایم سی کے لیڈر ابھیشیک بنرجی نے کہا کہ رمیش بدھوڑی کی بے شرمی نے پارلیمنٹ کے وقار کو گرایا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایتھکس کمیٹی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کے مطابق چونکہ وہ بی جے پی کے ایم پی ہیں اسی وجہ سے ان کو چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ مہوا حکومت کی حمایت کرنے کے بجائے اس سے سوالات کرتی ہیں اس لیے ان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو معطل کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے۔ انھوں نے اسے انصاف کا مذاق بتایا۔
Published: undefined
قارئین کو یاد ہوگا کہ نئی پارلیمنٹ میں کارروائی کے دوران رمیش بدھوڑی نے دانش علی کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز زبان استعمال کی تھی اور انھیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ ان کی شان میں بیہودہ الفاظ کا استعمال کیا تھا اور ایوان کے باہر دیکھ لینے کی دھمکی دی تھی۔ دانش علی نے ان کے خلاف ایک شکایت اسپیکر اوم برلا کو پیش کی اور بدھوڑی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ان کی شکایت مراعات کمیٹی کو پیش کر دی گئی لیکن اس بارے میں ابھی تک کمیٹی کی کوئی میٹنگ نہیں ہو سکی ہے۔ حالانکہ کمیٹی نے بدھوڑی کو طلب کیا تھا لیکن انھوں نے حاضر ہونے سے انکار کر دیا۔
Published: undefined
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے بدھوڑی کے بجائے دانش علی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر ڈالا۔ انھوں نے ان پر ضابطے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ اس طرح حکمراں جماعت کے لوگوں کی جانب سے بے بنیاد باتیں کی جا رہی ہیں لیکن ایسے لوگوں کے بولنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اگر اپوزیشن کا کوئی لیڈر کوئی ایسا بیان دے دے جو حکومت کے خلاف ہو تو فوراً اس کے خلا ف ایک محاذ کھول دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
حکومت کے دوہرے رویے کی ایک عمدہ مثال سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی کی رکنیت کا خاتمہ ہے۔ جس طرح لوک سبھا کے اسپیکر نے انتہائی عجلت میں ان کی رکنیت ختم کی تھی اس کو پوری دنیا نے دیکھا۔ اس کے بعد ہی فوراً ان سے ان کا بنگلہ بھی خالی کروا لیا گیا۔ اسے بھی پوری دنیا نے دیکھا۔ لیکن جب سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی سزا پر روک لگائی گئی اور ان کی رکنیت بحال ہو گئی تو بحالی کے لیے وہ تیزی دکھائی نہیں دی جو منسوخی کے لیے دکھائی دی تھی۔ لیکن بہرحال چونکہ سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا تھا اور راہل کے خلاف کارروائی کی گونج پوری دنیا میں ہوئی تھی اس لیے ان کی رکنیت کو بحال کرنا ہی پڑا۔ حکومت کے دوہرے رویے کی یہ تو بس چند مثالیں ہیں ورنہ دیکھا جائے تو قدم قدم پر حکومت کے اس رویے کا مشاہدہ ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined