آزادی کے بعد عوام اور حکومت کے کردار کو دیکھیں تو اس کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی سالوں میں عوام آزادی کے نشے میں چور تھی اور ملک کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ حکومت بھی کسی بھی طرح ملک کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتی تھی۔ آزادی کا نشہ کم ہوا تو عوام نے قانون کے حساب سے کام کرنا شروع کر دیا اور جذباتیت کو ترک کر دیا اور حکومت وقت کو بھی اقتدار اور سیاست کے جراثیم لگ گئے۔ اس کے بعد جو دور آیا وہ اندرون ملک میں تبدیلی کا دور آیا، جس میں سیاست حاوی رہی اور عوام و حکومت دونوں نے بیرونی اور غیر سیاسی کھلاڑیوں کو قومی سیاست میں دخل اندازی کی اجازت دے دی۔ یہ وہ وقت تھا جب بیرونی دنیا سرد جنگ کو خیر باد کہہ کر ایک طاقت کو سب کچھ سمجھنے لگی تھی۔ اس کے بعد جو دور آیا (جو اب تک جاری ہے)، جس میں ہندوستان نامی ملک کہیں کھو گیا اور اپنوں کے ذریعہ حکومت چلانے کا چلن شروع ہو گیا۔ اس کا بیرون ملک بھی استعمال شروع ہوا اور اندورنِ ملک بھی استعمال شروع کر دیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی طاقت معیشت بنی، یعنی جو کچھ ملک نے حاصل کیا اس کا استعمال اپنے لئے اور اپنوں کے ذریعہ حکومت کرنے کا کام کیا جانے لگا۔
Published: undefined
اب وہ وقت آ گیا ہے جہاں ملک کے ہر طبقہ کی ترقی اور خوشحالی ایک خواب بن گئی ہے اور اب حکومت کی توجہ صرف اپنوں کی ترقی تک محدود ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بھی اگر حزب اختلاف آئین کی دہائی نہ دیتی تو بر سر اقتدار حکومت کی نشستیں چار سو پار ہو ہی جاتیں، جس کا سیدھا مطلب ایک طرح کے لوگوں کی ایک طرح کے لوگوں کے لئے حکومت کا قیام ہوتا۔ عوام کسی طرح بر سر اقتدار جماعت کو اکثریت سے دور رکھنے میں کامیاب رہی۔ مجبوراً ان کو حکومت کے قیام کے لئے اتحاد ی پارٹیوں کی حمایت لینی پڑی۔ اتحادی پارٹیوں کی حمایت کے باوجود سب سے بڑی بر سر اقتدار جماعت حکومت کرنے کے اپنے پرانے راستے پر ہی قائم ہے۔
Published: undefined
حکومت نے 45 اہم عہدوں کے لئے ایک اشتہار دیا ہے، جن پر تقرریوں کے عمل کی ذمہ داری یو پی ایس سی یو پر ہوگی۔ یو پی ایس سی اگر کسی آسامی کے لئے امیدوار انتخاب کرتا ہے تو ریزرویشن کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، جس کے تحت ہر چوتھی اسامی او بی سی اور ساتویں اسامی ایس سی طبقہ کے امیدوار سے پر کی جانی لازمی ہے۔ لیکن اس کے توڑ کے لئے الگ الگ محکموں سے صرف تین اسامیاں ہی پر کی جائیں گی یعنی او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی طبقوں کے لوگوں کو اس سے دور رکھا جائے گا۔ لیٹرل انٹری کے ذریعہ پہلے بھی ماہرین کو رکھا جا چکا ہے جس میں منموہن سنگھ، مونٹیک سنگھ اہلوالیہ، رگھو رام راجن جیسی شخصیات شامل ہیں۔
Published: undefined
اتنی بڑی تعداد میں پہلی مرتبہ لوگوں کو پانچ سالوں کے لئے رکھا جا رہا ہے۔ اس سے دو طرح کے سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ یہ لوگ جو پانچ سال کے لئے حکومت میں کام کریں گے ان کو حکومت کے کام کرنے کے طریقے کا پتہ لگ جائے اور بعد میں وہ اپنے تعلقات کا استعمال بھی کریں گے۔ لوگ سیبی کی چیئرپرسن مادھبی پوری کی بھی مثال دے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے عہدے کا استعمال کس طرح کیا۔ اس سے ریزرویشن کے نظام کو تو نقصان پہنچے گا ہی جس کی وجہ سے اتحادی پارٹیاں بھی اس نظام کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن ساتھ میں ان افسران کا کیا ہوگا جن کے آگے پانچ سال کے لئے یہ منتخب افسران دیوار کی شکل میں رکاوٹ کے طور پر کھڑے ہو جائیں گے۔
Published: undefined
دراصل، حکومت وقت کی ترجیح اپنوں کے لئے حکومت کا قیام نہیں بلکہ ملک کی ترقی ہونی چاہئے۔ اگر یہ دروازہ کھل گیا تو کل کو یادوں کی حکومت میں یادوں کی لیٹرل انٹری اور آدی واسیوں کی حکومت میں آدی واسیوں کی لیٹرل انٹری سے داخلہ عام ہو جائے گا۔ اگر لیٹرل انٹری کو نہ روکا گیا تو آنے والے دنوں میں آئی اے ایس افسران کے لئے تو مشکل ہوگی ہی لیکن سب سے بڑی پریشانی ان مسلم کامیاب طلباء کے لئے ہوگی جو یو پی ایس سی امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ آگ اگر پھیلی تو ریزروین کو تو اپنے لپیٹے میں لیگی ہی لیکن آئی اے ایس افسران اور نو منتخب اقلیتی طبقہ کے افسران بھی اس آگ میں جھلس جائیں گے۔ ملک کی ترقی کے لئے اس جذبہ کی ضرورت ہے جو حکمرانوں اور عوام میں آزادی کے وقت تھا۔
(تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت نے لیٹرل انٹری کے اشتہار پر پابندی لگا دی۔ مرکزی عملہ کے وزیر جتیندر سنگھ نے اس سلسلے میں یو پی ایس سی چیئرمین کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے یو پی ایس سی چیئرمین کو خط لکھ کر کہا کہ وزیر اعظم مودی کی ہدایت پر براہ راست بھرتی کے اشتہار پر پابندی لگا دی گئی ہے)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined