ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس کی ’ہندوتوا حکومت‘ نے دسہرہ کے موقع پر جانوروں کی بلی (قربانی) دینے کی رسم پر عائد پابندی کو ختم کر دیا ہے۔ حکومت کا ایک ’ہندو تہوار‘ پر (مسلمانوں کو نوراتری میں شرکت سے روکنے والے کچھ متعصب افراد کے بقول) جانور ذبح کرنے کی اجازت دینا حیران کن ہے! کہا جا سکتا ہے کہ ’ای ڈی‘ ( ایکناتھ-دیویندر) حکومت ہندوتوا پر زور دار حملہ کر رہی ہے اور اس میں مہاراشٹر میں مہاراشٹریوں کو ’مراٹھی ڈانڈیا‘ کے ذریعے گمراہ کرنا شامل ہے۔ مہاراشٹریوں کے پاس اس قسم کا کوئی تہوار نہیں ہے اور ڈانڈیا خود لاٹھی کے لیے استعمال ہونے والا ایک گجراتی لفظ ہے! یہ تقریباً لیجیم رقص (مہاراشٹر کا لوک رقص) کی طرح ہے لیکن اس رقص کا کسی خاص تہوار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ان جسمانی مشق کی کلاسز کی طرح ہے جو مہاراشٹر بھر کے اسکولوں میں جسمانی تربیت کے دوران میوزیک اور تال کے ساتھ کی جاتی ہے۔ لیکن مراٹھی ڈانڈیا ایک نیا تصور ہے جسے ریاست میں ای ڈی حکومت نے ادھو ٹھاکرے کی زیرقیادت اس شیو سینا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایجاد کیا ہے، جو ویدانتا-فاکسکون پروجیکٹ کو پڑوسی ریاست کو تحفے میں دینے اور مقامی مہاراشٹریوں سے ملازمتیں چھین لینے کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ شندے حکومت کے لئے یہ ثابت کرنا ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے کہ وہ مہاراشٹر کے خلاف نہیں ہے!
Published: undefined
ای ڈی حکومت مہاراشٹریوں کو مائل کرنے کی پہل کے ایک حصہ کے طور پر وجئے دشمی کے موقع پر بکروں کی بلی (قربانی) کی اجازت دے رہی ہے، یہ تہوار اس سال بدھ کے روز منایا جائے گا۔ مہاراشٹر میں کئی مندر ہیں جو دیوی درگا کے مختلف اوتاروں کے لیے وقف ہیں اور جہاں صدیوں سے بکرے کی قربانی کرنا روایت رہی ہے۔ لیکن صرف درگا مندروں میں ہی نہیں ریاست بھر میں ایسے بہت سے چھوٹے اور غیر معروف دیوتاؤں کے مندر موجود ہیں جہاں باقاعدہ رسم کے طور پر جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے۔سال 2005 میں ستارا کے مینڈھر دیوی مندر میں بھگدڑ مچ گئی تھی، جس میں عقیدت مند ہلاک ہو گئے تھے، اس کے بعد حکومت نے جانوروں کی قربانیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے کچھ سال بعد ناسک کے سپت شرنگی مندر میں قربانی کے بعد ہوائی فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ (حالانکہ ان واقعات میں کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا تھا)۔ بامبے ہائی کورٹ کی جانب سے ایک انتباہ دیا گیا ہے کہ اگر بکرے کی قربانی ہوتی ہے تو جشن منانے کے لیے ایسی غیر ذمہ دارانہ فائرنگ نہیں ہونی چاہیے، جو خطرناک ثابت ہو۔
Published: undefined
قربانی (بلی) ریاست بھر میں دیوی پوجا کی ایک اہم رسم ہے۔ بکرے کی قربانی چھترپتی شیواجی مہاراج اور تلجا پور میں ایک شکتی پیٹھ، تلجا بھوانی مندر کے لیے معمول کی بات تھی، جہاں سے وہ جنگ کے لیے روانہ ہوئے تھے، یہان آج بھی قربانی کے لیے مذبح موجود ہے، جس میں نکاسی کا مناسب انتظام اور رسومات کے لیے ایک بہت بڑا تالاب موجود ہے۔ دراصل، دوسرے مندر اتنے اچھی حالت میں نہیں ہیں اور مینڈھر دیوی میں بھگدڑ اس وقت پیش آئی جب اس سال دسیوں بکروں کی قربانی کے دوران مقدس مقام کی طرف جانے والی سیڑھیاں خون اور جانوروں کے گوشت سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ خیال رہے کہ یہ قربانی وجئے دشمی پر نہیں بلکہ جنوری کے مہینے میں شاکمبری پورنیما (پورا چاند) کے موقع پر کی جا رہی تھی۔
Published: undefined
بی جے پی عید الاضحیٰ کے موقع پر بکروں کی قربانی کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان پر اس ضروری عمل کو ترک کرنے کا زبردست دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تاہم، وجئے دشمی کے دوران بکرے کی قربانی ریاست میں قبائلی اور دیگر خانہ بدوش برادریوں کے ایک بڑے حصے کے لیے بھی ضروری ہے جو کہ ایک بڑا ووٹ بینک ہے۔ پابندی ختم کرنے کو ان عقیدت مندوں کی خوشنودی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، یہ لوگوں کے بڑے طبقوں، خاص طور پر گجراتی، جین برادری کے اس مطالبے سے مطابقت نہیں رکھتا ہے کہ نہ صرف نان ویجیٹیرین کھانے پر پابندی لگائی جائے بلکہ نوراتری کے دوران ملک بھر میں نان ویج کے اشتہارات پر بھی پابندی لگائی جائے، یہ مطالبہ مغربی بنگال کے لئے بھی ہو رہا ہے جہاں درگا پوجا کے دوران نان ویجیٹیرین کھانے کے خلاف کوئی مذہبی پابندی نہیں ہے۔
Published: undefined
کچھ سال پہلے ممبئی کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں گجراتی، جینوں، ہندوؤں اور مہاراشٹری برہمنوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی جس میں سابقہ افراد نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان کے ایک تہوار کے موقع پر نان ویج کھانا پکانے یا کھانے سے باز رہیں۔ اس وقت ہونے والی ہنگامہ آرائی کو ختم کرنے کے لیے پولیس کو بھی مداخلت کرنا پڑی تھی اور اس واقعہ نے ممبئی بھر میں مہاراشٹریوں اور گجراتیوں کے درمیان دراڑ کو مزید وسیع کر دیا تھا۔ دراصل، مہاراشٹری برہمن بنگالی برہمنوں کی طرح مچھلی یا گوشت کے استعمال کو ممنوع قرار نہیں دیتے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز