مہاتما گاندھی 1917 میں جیسے ہی احمد آباد پہنچے، انھیں ٹھکر باپا کا کط ملا جس میں انھوں نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کچھ وقت کے لیے ایک دلت فیملی کو آشرم میں رکھ سکتے ہیں۔ گاندھی جی نے اسے بخوشی قبول کیا اور اس کے بعد دودابھائی دافدا اپنی بیوی دانی بین اور بیٹی لکشمی کے ساتھ آشرم چلے آئے۔ آشرم میں رہنے والے وہ پہلے دلت تھے۔
لیکن اس سے ہنگامہ مچ گیا۔ گاندھی جی کی بڑی بہن نے ہمیشہ کے لیے آشرم چھوڑ دیا۔ مگن لال نے مدراس چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ دانی بین کے کچن میں گھسنے سے ناراض کستوربا نے گاندھی جی کو تنہا چھوڑ اپنے والد کے گھر چلے جانے کی دھمکی دے دی۔ اس پر گاندھی نے کستوربا کو جواب دیا کہ اگر ان کی ایسی ہی خواہش ہے تو وہ ایسا ہی کریں۔ اس سے کستوربا حیران رہ گئیں اور کافی پریشان ہوئیں، لیکن وہیں رہیں۔ اثر آشرم کے باہر بھی ہوا۔ پہلے تو آس پاس کے کسانوں نے آشرم میں ساگ سبزی بھجوانے سے انکار کر دیا، پھر دودھ دینے والوں نے۔ چندہ ملنا بھی اچانک رک گیا۔
Published: undefined
جلد ہی ایسی حالت آ گئی کہ آشرم میں صرف ایک دن کا راشن بچا۔ اس دن شام کی پوجا میں گاندھی جی نے کہا کہ وہ دلت فیملی کو آشرم چھوڑنے کو نہیں کہیں گے بلکہ آشرم کے ہی سامنے صفائی اہلکاروں کی کالونی میں لے جائیں گے۔ جب آشرم کا وجود ایسے خطرے میں تھا تبھی ایک پراسرار کار آشرم کے دروازے پر رکی اور 30 ہزار روپے کا پیکٹ چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ سب نے راحت کی سانس لی۔
ویسے تو گاندھی کے جنوبی افریقہ سے لوٹنے کے پہلے سے ہی ٹھکر باپا (امرت لال ٹھکر) دلتوں اور قبائلیوں کے درمیان کام کر رہے تھے، لیکن جیسا ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا، یہ گاندھی تھی جنھوں نے چھوا چھوت کو آزادی کی لڑائی کے ایجنڈے میں لا دیا۔ اس وقت بھی اس ایشو پر گاندھی جی کی کم ہی لوگ حمایت کرتے تھے۔ ویسے ہی، جیسے آج بھی قتل کے 74 سال بعد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ان سے نفرت کرتے ہیں۔
Published: undefined
2021 میں لوگ حکومت کے ذریعہ 1250 کروڑ روپے کی لاگت سے ’عالمی سطحی تعمیر نو‘ کے لیے گاندھی آشرم پر قبضہ کیے جانے کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں جب کہ گجرات سمیت دیگر مقامات پر غریبوں، دلتوں اور قبائلیوں کی زندگی ویسی ہی ہے۔ ایسے میں کیا گاندھی جی، اس آشرم کو نئی شکل دینے کی اس چمک دمک بھرے منصوبہ کے لیے تیار ہو جاتے؟
گجرات حکومت کے اپنے اعداد و شمار ہی کہہ رہے ہیں کہ ریاست میں عدم تغذیہ کے شکار بچوں کی تعداد 2019 اور 2020 کے درمیان دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار اتنے ہی متنازعہ ہیں جتنے ریاست میں کووڈ سے ہونے والی اموات کی تعداد۔ میرے ساتھیوں کو طبی اہلکاروں نے بتایا ہے کہ کیسے آنند کے ضلع کلکٹر نے ضلع میں عدم تغذیہ کے شکار بچوں کی زیادہ تعداد بتانے پر ان کی خبر لے لی۔ دیگر اضلاع کے طبی اہلکاروں نے بھی مانا ہے کہ انھیں تعداد کم رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
Published: undefined
عزت مآب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ، ادارے عمارت-باغیچہ ہی نہیں ہوتیں۔ جس طرح کے متنازعہ لوگ اور لیڈر آشرم میں ان کے کمرے تک بڑی آسانی سے پہنچ جاتے ہیں، اسے دیکھ کر مہاتما گاندھی تو شرطیہ بڑے افسردہ ہوتے۔ جب کہ عام لوگوں کو لوہے کی جالی سے ہی کمرے میں جھانک کر رہ جانا پڑتا ہے۔ لیکن اس میں حیرانی کی بات نہیں۔ جب بھی جاپان، چین یا امریکہ جیسے ممالک کے لیڈر آشرم آتے ہیں، گجرات حکومت جھگی-جھونپڑیوں اور غریب بستیوں کو چھپانے کے لیے وہاں ہری چادر تان دیتی ہے۔ اب تو وہاں دیوار کھڑی کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا گاندھی نے ہندوستان کی غریبی کو چھپایا؟ کیا وہ برٹش وزیر اعظم سے ملنے ایک دھوتی میں نہیں گئے، جب کہ ’اَدھ ننگا فقیر‘ کہہ کر ان کا مذاق بنایا گیا؟ کیا وہ انگلینڈ میں کپڑا مزدوروں کی خستہ حالت کو سامنے لانے کے لیے ان سے ملنے نہیں گئے؟
گاندھی جی کے لیے ایک ایک پیسے کی قیمت تھی۔ نوآکھلی میں اندھیری راتوں میں وہ ایک لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر لوگوں کو آزادی کی قیمت سمجھاتے۔ جب گاندھی اپنی بات ختم کر لیتے تو لوگ جاتے جاتے جو کچھ دے سکتے، دے دیتے۔ عام طور پر لوگ لالٹین کے پاس سکے پھینک جاتے اور یہ منو اور آبھا کا کام ہوتا کہ ان سکوں کو اٹھائیں اور ان کا حساب کتاب رکھیں۔ ایک بار گاندھی نے منو اور آبھا سے پوچھا کہ کیا جتنا وہ بتا رہی ہیں، اس سے زیادہ پیسے عطیہ میں مل رہے ہیں؟ دونوں افسردہ ہو گئیں کہ آخر گاندھی ان کی ایمانداری پر شبہ کیسے کر سکتے تھے؟ تب گاندھی نے صبر کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ وہ سکے رات میں اٹھایا کرتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ سکے اندھیرے میں چھوٹ جاتے ہوں۔ پھر گاندھی نے ان دونوں کو آٹے کی چلنی لے کر جانے اور دھول مٹی کو چھان کر دیکھنے کو کہا کہ کہیں کچھ سکے رہ تو نہیں گئے۔ دونوں اندھیرے میں ہی گئیں اور تب تک مٹی کو چلنی سے چالتی رہیں جب تک کہ واقعی کچھ سکّے مل نہیں گئے۔
Published: undefined
لیکن لگتا ہے کہ گجرات حکومت کے لیے 1250 کروڑ روپے خرچ کر کے سابرمتی آشرم کو ’عالمی سطح‘ کا بنانا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن کیا یہ پیسے غریبوں کے کام آ رہے ہیں؟ کیا ان کا بہتر استعمال ہو سکتا تھا؟
اگر آپ کو یاد ہو، کانگریس کے جس پہلے اجلاس میں گاندھی نے حصہ لیا، انھوں نے جھاڑو اٹھا کر خود ہی ٹوائلٹ کی صفائی کی۔ لیکن جب وہ 1930 میں گودھرا کی دلت بستی گئے تو انھیں الگ ہی تجربہ ہوا۔ انھیں وہ علاقہ پورے شہر سے زیادہ صاف ستھرا نظر آیا۔ سبھی گھروں کے دروازے کھلے تھے اور پوری بستی کو پھول مالا سے سجایا گیا تھا، لیکن گھروں میں ایک بھی شخص نہیں تھا۔ سبھی چھتوں پر چڑھ گئے تھے جس سے آنے والے لوگوں پر ان کا عکس نہ پڑے۔ یہاں تک کہ گاندھی بھی انھیں سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ دلتوں نے یہ کہہ کر اترنے سے منع کر دیا کہ اس کے لیے گاندھی کے جانے کے بعد ان کے ہی لوگ ان کے ساتھ برا سلوک کریں گے۔
Published: undefined
’نو سرجن ٹرسٹ‘ نے 217 میں گجرات حکومت کو ایک لائن کی عرضداشت سونپ کر گزارش کی کہ وہ گجرات کے ایک بھی گاؤں کو ’بھنگی سے پاک‘ قرار دے دیں۔ لیکن حکومت ایسا ایک بھی گاؤں نہیں دکھا پائی۔ ہمیں گاندھی آشرم کے ’عالمی سطحی جدیدکاری‘ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ذات پات پر مبنی تعصبات کے ہندوستانی سوچ کی ’عالمی سطحی صفائی‘ کی ضرورت ہے۔
آج گجرات کے کتنے اسکول الگ ذاتوں کے لیے پانی کے الگ گھڑے نہیں رکھتے؟ کتنے اسکولوں میں بچوں کو ذات پات بھول کر ایک ساتھ ایک صف میں بٹھا کر مڈ ڈے میل پیش کیا جاتا ہے؟ وزیر اعلیٰ کی شکل میں آپ نے کتنے گاؤں میں جا کر دلت اور قبائلی کنبوں سے ہمدردی ظاہر کی جنھیں ذات پات پر مبنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا؟ آپ نے دلتوں کے گھروں میں کھانا کھانے کو دھوم دھام سے مشتہر کرنے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن آپ کے گھروں میں ایک بھی دلت کو کھانے پر مدعو نہیں کیا جاتا۔ کیا آشرم کے جدیدکاری منصوبہ میں ان سچائیوں کو دکھانے کی کوئی جگہ ہے؟
Published: undefined
پونہ معاہدہ کے بعد دلت جذبات کو پرسکون کرنے کے لیے ’ہریجن سیوک سنگھ‘ کی شرعات کی گئی۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے پوچھا کہ ٹرسٹ میں ایک بھی دلت ٹرسٹی کیوں نہیں ہے؟ گاندھی جی نے جواب دیا تھا کہ وہ چھوا چھوت کو غیر دلتوں کا گناہ مانتے ہیں اور اس لیے یہ انہی کا کفارہ ہے۔ لیکن پھر ہریجن سیوک سنگھ کی سرگرمیاں کیا رہی ہیں؟ گاندھی آشرم میں آج بھی بیت الخلاء کون صاف کرتا ہے؟
گاندھی کے آشرم سے چلے جانے کے بعد ان کی قدریں بھی چلی گئیں۔ جو پیچھے رہ گیا ہے وہ ہے زمین، ملکیت، کھادی اور تین بندروں کی مورتیاں۔ فزیکل لوکیشن کی جدیدکاری کی مخالفت کرنا مشکل ہے۔ لیکن کیا گاندھی آشرم بین مذہبی شادی اور بین مذہبی کھانے کی میزبانی کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے؟ جب کہ ’ورلڈ کلاس رینوویشن‘ سے بہت کم لوگوں کو کوئی پریشانی ہونے جا رہی ہے، مجھے عظیم شاعر اوما شنکر جوشی کا ایک دوہا یاد آ رہا ہے جس کا معنی ہے- جب بھوکے کے پیٹ سے آگ اٹھے گی تو اس کی لپٹیں کھنڈہر کی راکھ کو بھی بھسم کر دے گی۔
(6 ستمبر کو وزیر اعظم اور گجرات کے وزیر اعلیٰ کو لکھے کھلے خط کا حصہ)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined