یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برطانوی استعمارکے خلاف لائحہ عمل بنانے اور اس کو انجام تک پہنچانے کے لیے علماء کرا م کا نمایاں کردار رہا ہے۔ تاجران فرنگ نے برصغیر پر جس طرح مکر و فریب اور جال سازیوں سے غلبہ کیا تھا، اس سے مادر ہند کے جگر گوشوں، خصوصاً مسلمانوں کے دل و دماغ پر کاری ضرب لگی تھی۔ چنانچہ مدارس کے فارغین کی کفن بردوش جماعت انگریزوں سے بازیابی کے لیے میدان کارزار میں اتر گئی اور انہوں نے جو دلیری اور شجاعت دکھائی وہ رہتی دنیا تک تاریخ ہند کے صفحات پر نقش رہے گی۔ ایسے ہی ایک جانباز کا نام سید عطاء اللہ شاہ بخاری ہے، جو 23 ستمبر 1891ء مطابق یکم ربیع الاول 1310ھ کو عظیم آباد ( پٹنہ) میں پیدا ہوئے۔ جب وہ چار برس کے ہوئے تو والدہ داغ مفارقت دے گئیں۔ لہٰذا والد حافظ سید ضیاء الدین نے ماں اور باپ دونوں کا حق بخوبی ادا کیا، جنہوں نے بیٹے کو خواجہ عنبر مسجد میں اپنے ساتھ رکھا جن کی زیر نگرانی قرآن مجید حفظ کیا اور وہیں ایک مولانا سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی۔ جب عطاءاللہ 10 برس کے ہوئے تو ان کے والد پٹنہ واپس آ گئے۔ بعد ازاں 1913ء میں پنجاب کا سفر کیا اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان کے تعلیمی سفر کے بارے میں ایک بات بہت حیران کن اور غیر معمولی ہے کہ وہ کسی مدرسے میں طالب علم کے طور پر اندراج نہیں ہوئے۔ آپ نے مختلف مقامات پر مختلف علماء کرام سے اپنی علمی تشنگی بجھائی۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے مکتبہ فکر سے وابستہ رہے اور آپ انگریزی لباس و زبان کے سخت مخالف تھے۔
Published: undefined
عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1916ء میں کوچہ جیل خانہ امرتسر کی ایک چھوٹی سی مسجد سے بطور اما م کیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد تحریک خلافت زور پکڑ چکی تھی۔ قومی اتحاد کے نغمے فضا میں گونج رہے تھے۔ جس میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ اسی ضمن میں مو صوف بھی 9 اپریل 1919ء کو امرتسر رام نومی کے تاریخی جلوس میں شامل ہوئے تھے۔ 13 اپریل 1919ء کو سانحہ جلیانوالہ باغ ظہور پذیر ہوا۔ اس حادثے نے شاہ صاحب کے باغیانہ حوصلوں کو جلا بخشی اور سیاسی میدان میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا۔ امرتسر میں مسلم لیگ اور کانگریس کے سالانہ جلسے ہوئے تو ان میں ایسی معرکہ آرا سیاسی اور جوشیلی تقاریر کیں کہ فن خطابت کا حق ادا کر دیا۔ فروری 1921ء میں کلکتہ کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور مولانا آزاد کی تجویز ترک موالات کی حمایت میں ایسی پرمغز تقریر کی کہ مجمع کے دل و دماغ پر چھا گئے اور ان کا شمار ہندوستان کے صف اول کے مقررین میں ہونے لگا۔
Published: undefined
ان کے انقلابی تیور کے سبب 27 مارچ 1921ء کو آدھی رات کے وقت دفعہ 124 الف کے تحت گرفتاری عمل میں آئی اور 8اپریل کو ایف۔ اے۔ کارنر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے تین سال قید بامشقت کی سزا سنائی، جس نے عطاءاللہ شاہ بخاری کو برطانوی حکومت کے خلاف ایک ایسے انقلابی سانچے میں ڈھال دیا کہ انہوں نے ملک کے کونے کونے کا سفر کیا اور برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف عربی، فارسی، اردو، پنجابی اور ملتانی زبانوں پر مشتمل تقریباً آٹھ یا دس ہزار کے مابین تقاریر کر کے ہندوستانیوں کو برانگختہ کر دیا۔ انہوں نے 26 سال تحریک خلافت، تحریک شدھی کرن، تحریک عدم تعاون اور دوسری عالمی جنگ میں فوجی بھرتی کے خلاف مہم وغیرہ میں سرگرم حصہ لیا۔ سائمن کمیشن کے خلاف لاہور میں ہونے والے احتجاج میں مولانا بخاری، لالہ لاجپت رائے کے دوش بدوش پہلی صف میں موجود رہے۔ انگریز حکام کا ماننا تھا کہ عطاء اللہ جیسا شخص جتنے زیادہ عرصہ جیل میں رہے، ہمارے لیے اتنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ شاہ صاحب نے مولانا آزاد کی ایما پر مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔ جس کے وہ بانی صدر بھی تھے۔ مجلس احرار نے بھی انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا۔ مولانا بخاری نے تحریک آزادی اور مختلف مہمات کی خاطر 8 مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور تقریباً 9 سال جیل میں گزارے۔ وہ برصغیر کی تقسیم کے سخت مخالف تھے۔ آپ نظریہ عدم تشدد اور آئینی ذرائع سے آزادی حاصل کرنے کے حامی تھے۔ تقریر و خطابت کے شہنشاہ عطا اللہ شاہ بخاری 69 سال کی عمر میں 21 اگست 1961ء کو رب حقیقی سے جا ملے۔ ملتان میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں تقریباً دو لاکھ افراد نے شرکت کی۔
Published: undefined
مہاتما گاندھی عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقاریر کے بارے میں اپنے خیالات یوں پیش کرتے ہیں کہ ’’شاہ جی آگ ہیں جو دشمنوں کے نشیمن پھونکتی اور دوستوں کے چولہے جلاتی ہے۔ وہ ہوا کو روک کر اس سے روانی اور سمندر کو ٹھہرا کر اس سے طغیانی لیتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز