دسمبر 1999 میں ہندوستانی جیل سے اپنی رہائی کے ایک سال بعد مولانا مسعود اظہر نے جیش محمد نامی دہشت گرد تنطیم قائم کی۔ اس دہشت گرد تنطیم کو بنیادی طور پر طالبان کی دوسری تنظیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس تنظیم نے نہ صرف کئی مرتبہ اپنا نام بدل کر کام کیا بلکہ کام کرنے کے طریقہ کار میں بھی تبدیلیاں کیں۔ اس نے جموں و کشمیر میں اپنی دہشت گردانہ کارروایئوں کو انجام دینا اپنا مقصد رکھا، اس تنظیم کو پاکستان حکومت کی حمایت ہمیشہ حاصل رہی۔
مولانا مسعود اظہر کو 1994 میں ہندوستانی سلامتی دستوں نے گرفتار کر کے جیل میں قید کر دیا تھا، لیکن دسمبر 1999 میں کاٹھمنڈو سے نئی دہلی آنے والے ایک مسافر طیارے کو پاکستانی دہشت گردوں نے اغوا کیا اور ان اغو کاروں نے جہاز اور مسافروں کی رہائی کے بدلے میں ہندوستانی جیل میں قید دہشت گرد مولانا مسعود اظہر، عمر سعید شیخ اور مشتاق زرگر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ واجپئی حکومت نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو رہا کر دیا۔ قندھار میں ان دہشت گردوں کو چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو جانا پڑا تھا۔
سال 2000 میں رہائی کے بعد مسعود اظہر نے راولپنڈی میں حرکت المجاہدین کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خلیل سے ملاقات کی اور تنظیم میں اپنے لئے بڑی ذمہ داری کا مطالبہ کیا ، لیکن یہ بات چیت مسعود اظہر کے لئے ایک دھچکا ثابت ہوئی ، کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے انہیں نہ صرف کوئی ذمہ داری دینے سے انکار کر دیا بلکہ ان سے کہا کہ وہ فی الحال خاموش رہیں ۔ لیکن اظہر نے اس ملاقات کے کچھ ہی دنوں بعد کراچی میں ایک ریلی کی اور اس ریلی میں جیش محمد کے قیام کا اعلان کر دیا اور مولانا فضل الرحمٰن کو واضح پیغام دے دیا کہ وہ اپنی آزاد تنظیم (دوکان ) چلانے کے حق میں ہیں ۔ اس تعلق سے کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسعود اظہر نے اس تنظیم کا خاکہ ہندوستان میں قید کے دوران ہی تیار کر لیا تھا اور صرف اس کو اعلان کر نا باقی تھا یعنی وہ حرکت المجاہدین سے علیحدگی کا اپنا ذہن بنا چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کی دہشت گردوں اور اثاثوں کی تقسیم کو لے کر ان کے اور حرکت المجاہدین کے مابین اختلافات ہو گئے تھے ۔ بتا یا جاتا ہے کہ پاکستان کے سرکاری اداروں کی جانب سے معاملے میں عدم دلچسپی کے بعد فریقین نے مشترکہ بزرگ مفتی نظام الدین شامزئی کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے تنازعہ حل کرانے میں مدد کی۔
Published: undefined
مسعود اظہر نے جیش کے قیام کے بعد اپنی دہشت گرد سرگرمیاں تیز کر دیں اور اس نے جموں و کشمیر میں اپنی کارروائیاں مزید بڑھا دیں۔ اکتوبر 2001 میں جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کی عمارت پر خود کش حملے میں 30 لوگ مارے گئے اور یہ دہشت گردانہ کارروائی جیش نے ہی انجام دی تھی۔
اس کے بعد اسی سال دسمبر2001 میں اظہر کے دہشت گردوں نے ہندوستان کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا جس میں 9 لوگ مارے گئے تھے ۔ سال 2002میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں بھی جیش محمد کا نام آیا ۔ اظہر کی اس تنظیم نےستمبر 2016 میں پٹھان کوٹ میں حملہ کر کے 7 فوجیوں کو شہید کر دیا پھر اڑی میں 19فوجیوں کو شہید کر دیا اور اب 14فروری کو پلوامہ میں کیے گئے حملہ میں 40 سے زیادہ سی آر پی ایف اہلکاروں کو شہید کر دیا۔
ہندوستان کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برطانیہ نے بھی جیش محمد کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا لیکن پاکستان نے اظہر اور اس کی تنظیم کو بچائے رکھا ہے۔
پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2002 میں ڈینیئل پرل کے قتل کے بعد جیش محمد پر پابندی لگا دی تھی اور مسعود اظہر کو نظر بند کر دیا تھا۔ مسعود اظہر اور اس کے ساتھیوں نے اس دوران نئی تنظیم خدام الاسلام کے نام سے کام کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ اس کا ایک دھڑا الفرقان کے نام سے کام کرنے لگا تھا۔ مشرف نے بعد میں ان دونوں تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی ،لیکن پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے عمل صرف علامتی اور دکھاوٹی تھے کبھی عملی طور پر اس کی جانب سے کچھ نہیں ہو ا جس کی وجہ سے ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ۔پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ ایسی تنظیمیں اور لوگ کبھی بھی کسی ملک اور خطہ کے لئے اچھے نہیں ہوسکتے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined