سال 1952 میں لندن سموگ کے مشہور باب کے بعد دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے مضر اثرات پر بحث شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سے بیشتر ممالک نے فضائی آلودگی پر توجہ دینا شروع کر دیا اور اس کے معیار کو نافذ کر دیا ہے۔ سالہا سال کئی ممالک فضائی آلودگی پر قابو پانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ ہمارے ملک میں سال 1981 سے فضائی آلودگی سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن ہم دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں شامل ہیں۔ سال 2014 سے قبل زمینی سطح پر فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بہت سی کوششیں کی گئی تھیں لیکن اس کے بعد دیگر مسائل کی طرح فضائی آلودگی کو بھی صرف اعداد و شمار کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں فضائی آلودگی کے حوالے سے ماحولیات کے وزرا کے بیانات میں کوئی مطابقت نظر نہیں آتی۔
Published: undefined
ینیڈا فضائی آلودگی کے لحاظ سے دنیا کے صاف ترین ممالک میں شامل ہے، اس کے باوجود وہاں ہر سال 8000 سے زائد افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے 70 لاکھ باشندوں کے اعدادوشمار مردم شماری سے لئے گئے اور ان کی رہائش کے مقامات کو 1981 سے 2016 کے درمیان فضائی آلودگی کے اعداد و شمار سے جوڑا گیا تھا۔ یہ تحقیق امریکہ کے ہیلتھ ایفیکٹس انسٹی ٹیوٹ کے لیے کی گئی تھی۔ تحقیق کے سرکردہ سائنسدان، یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے پروفیسر مائیکل براؤر کے مطابق جن مقامات پر فضائی آلودگی تنظیم کے رہنما اصولوں سے نصف تھی، وہاں بھی لوگوں کی صحت فضائی آلودگی سے متاثر ہو رہی ہے۔
Published: undefined
ہیلتھ ایفیکٹس انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ کی جانب سے اسی طرح امریکہ کی 6 کروڑ آبادی اور یورپ کی 3 کروڑ کی آبادی میں بھی کی گئی۔ ہر ایک تحقیق کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ فضائی آلودگی کی کوئی بھی سطح انسانی صحت کے لئے محفوظ نہیں۔ پروفیسر مائیکل براؤر مزید کہتے ہیں کہ مختلف ممالک کی جانب سے نافذ کردہ فضائی آلودگی کی محفوظ سطح محض دھوکہ ہے اور کچھ نہیں۔ فضائی آلودگی کے اثرات پر مسلسل تحقیق کی جا رہی ہے۔ جولائی 2022 میں برطانیہ میں سائنسدانوں کے ایک مقالے کے مطابق فضائی آلودگی کے زیر اثر انسان جنونی ہو جاتا ہے اور پاگلوں کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔ امریکی سائنسدانوں کے مطابق روڈ ٹرانسپورٹ سے پیدا ہونے والی آلودگی سے دمہ کے دورے پڑتے ہیں اور صحت مند انسان بھی دمہ کا شکار ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
ہیلتھ ایفیکٹس انسٹی ٹیوٹ آف امریکہ کی جانب سے کی گئی، اس تحقیق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز بھی حفاظت کی ضمانت نہیں ہیں کیونکہ یہ گائیڈ لائنز آلودگی کی نصف سطح پر بھی صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس تناظر میں ہم ہندوستانی لوگ کسی دوسری دنیا سے آئے ہوئے لگتے ہیں، کیونکہ یہاں فضائی آلودگی کے معیار کے مطابق جس محفوظ سطح کی بات کی گئی ہے، وہ عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں سے سات گنا زیادہ ہے! اس کے باوجود ہمارے ملک میں سال 2014 سے لے کر اب تک ہر مرکزی وزیر ماحولیات بشمول ڈاکٹر ہرش وردھن نے، جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، کھلے عام ایک ہی بیان دیا ہے کہ فضائی آلودگی کسی کو بیمار نہیں کرتی، کسی کی عمر کم نہیں کرتی اور کسی کی جان بھی نہیں لیتی!
Published: undefined
27 جولائی کو ماحولیات کے وزیر مملکت اشونی چوبے نے راجیہ سبھا کو بتایا کہ سال 2016 کے مقابلے میں سال 2021 تک دہلی کی ہوا میں پی ایم 10 کی ارتکاز میں 27 فیصد اور پی ایم 2.5 میں 22 فیصد کی کمی آئی ہے۔ دراصل یہ حکومت کے اعداد و شمار کی بازیگری کا نتیجہ ہے۔ وزیر مملکت برائے ماحولیات شاید یہ بھول گئے کہ مارچ 2022 میں انہوں نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ قومی صاف فضائی پروگرام کے تحت دہلی سمیت 31 شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح سال 2019-2020 کے مقابلہ 2020-2021 میں زیادہ ہو گئی ہے۔
Published: undefined
ہمارے ملک میں ماحولیات پر کوئی بحث نہیں ہوتی اور اگر بحث ہوتی بھی ہے تو وہ کسی طنز سے کم نہیں ہوتی۔ ابھی 8 سال کی کامیابیوں پر مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام ریاستوں کی جانب سے نام نہاد ’امرت دور‘ سے متعلق بہت سے اشتہارات شائع کیے جا رہے ہیں لیکن کسی ایک میں بھی ماحول کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ مودی حکومت نے موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافے کو فضائی آلودگی، آبی آلودگی اور کچرے کی آلودگی سے الگ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے عالمی فورمز سے موسمیاتی تبدیلی پر بہت سی تقریریں کیں اور ہر تقریر میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی میں ہمارے ملک کا کوئی کردار نہیں، پھر بھی ہم وشو گرو ہیں! جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے بعد ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ فضائی آلودگی کے معاملے میں بنگلہ دیش کے بعد ہندوستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافے کا مسئلہ ہے، ظاہر ہے فضائی آلودگی میں کمی سے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
Published: undefined
سال 2014 کے بعد سے کم از کم ماحولیات کے حوالے سے زمینی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا بلکہ سابقہ حکومتوں کی کامیابیوں کو بھی مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اب ڈیٹا کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ وزیر ماحولیات سے لے کر وزیر اعظم تک جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں وہ وقت، حالات اور سننے والے عوام کی فکری سطح کی بنیاد پر فوراً گھڑے جاتے ہیں، اس لیے اعداد و شمار ہر جگہ بدل جاتے ہیں۔ فضائی آلودگی کے تناظر میں بھی یہی ہوتا ہے، گنگا کی آلودگی کے تناظر میں بھی یہی ہوتا ہے اور جنگلاتی رقبے کے تناظر میں بھی یہی ہوتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined