سیاحت، ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کتنے موضوع ہیں جن پر لکھنے کی ضرورت ہے لیکن سیاست اور سیاست میں بڑھتی فرقہ پرستی نہ کسی موضوع کے بارے میں سوچنے دے رہی ہے اور نہ ہی سر اٹھانے کا موقع دے رہی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران رہنماؤں نے فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کیا، جس میں ہندوستانی سماج کے ایک طبقہ کو اپنا ہدف بنایا گیا تاکہ دوسرا طبقہ خوش ہو کر اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کر دے۔ عوام نے لیکن اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں مخلوط حکومت کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔ عوام نے سیاسی جماعتوں کو اپنی رائے کے ذریعہ یہ واضح پیغام دیا کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں لیکن بجائے اس کے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی رائے کو سمجھتیں اور اس روشنی میں آگے کی حکمت عملی تیار کرتیں انہوں نے تو اس کے بر عکس کام کرنا شرع کر دیا۔
Published: undefined
انتخابی مہم اور اس کے نتائج کے بعد یہ امید تھی کہ سیاسی جماعتیں اس پر غور کریں گی کہ ان کی حکمت عملی میں کہاں چوک ہوئی اور عوام ان سے کیوں ناراض ہوئے۔ حکمراں جماعت کو خاص طور پر غور کرنے کی ضرورت تھی، جس کی نشستیں کافی کم ہو گئیں اور عوام کی ناراضگی واضح نظر آئی۔ لیکن غور کرنے کے بجائے حکمراں جماعت نے اپنی ساری طاقت اور توجہ اس بات پر لگا دی کہ کس طرح دوسرے رہنما کو اس شکست کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور اس کے نتیجے میں پھر جس دامن کو تھاما وہ اسی گھسی پٹی فرقہ پرستی کا ہے، جس کو انتخابات میں خوب آزمایا گیا۔
Published: undefined
وزیر اعظم مودی کو بچانے کے لئے اور ذرائع ابلاغ میں رائے بدلنے کی غرض سے بحث کا رخ اتر پردیش کے وزیر اعلی اور آر ایس ایس کے موہن بھاگوت کی جانب موڑ دیا گیا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی نے خود پر ہو رہے حملوں کا رخ ملک کی اقلیتوں یعنی فرقہ پرستی کی جانب موڑ دیا۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد ضمنی انتخابات میں خراب کارکردگی سے سبق نہ لیتے ہوئے حکمراں پارٹی کے رہنما ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، جس کے نتیجے میں نہ صرف حکومت کی کارکردگی پر برا اثر پڑا بلکہ اس سے حکمراں پارٹی یعنی بی جے پی کی ساکھ پر بھی سوال کھڑے ہونے لگے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جب عام انتخابات میں اتر پردیش میں خراب کارکردگی کے لئے خود کو گھرتے دیکھا، تو آنے والی مصیبت یعنی اتر پردیش میں ہونے والی 10 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے پیش نظر کانوڑیوں والا فرقہ پرستی کا پتہ کھیل دیا۔ فرقہ پرستی کے اس کارڈ سے ایک فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ بحث کا موضوع بدل گیا اور بی جے پی اس پر مخالفت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ اس کی تو یہی پچ ہے، جس پر وہ بیٹنگ سب سے زیادہ اچھے طریقے سے کرتی ہے کیونکہ انتخابات کے دوران بھی وزیر اعظم نے اسی پچ پر منگل سوتر، مجرا، گھس پیٹھیا اور زیادہ بچے پیدا کرنے والے فرقہ پرستی کے چھکے چوکے لگانے کی کوشش کی تھی۔
Published: undefined
آر ایس ایس کے موہن بھاگوت آج کل وزیر اعظم مودی پر طنز کرتے نظر آ رہے ہیں، چاہے ان کا وہ تکبر والا بیان ہو یا پھر انسان کا نہ رکنا اور خود کو خدا کے درجہ میں سمجھ لینا والا بیان ہو۔ لیکن ان کے یہ تمام بیان حزب اختلاف کی جگہ لینے کے لئے ہیں اور اپنی شبیہ بنانے کی سمت میں ایک قدم ہے کیونکہ انہوں نے ابھی تک ہاتھرس معاملہ میں بابا پر کوئی بیان نہیں دیا۔ ویسے شاید انہوں نے کبھی آسارام یا رام رحیم پر بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ موہن بھاگوت مودی پر جتنا چاہے طنز کر لیں لیکن گزشتہ دس سالوں سے ان کی خاموشی اور خاص طور سے انتخابی مہم کے دوران کبھی کوئی بیان نہ دینا، ان کی مودی کے لئے خاموش حمایت اور عوام میں سنگھ کی شبیہ کو بہتر بنانے کے طریقے ہیں۔
Published: undefined
سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کو کسی ایک خاص فرد اور طبقہ کے لئے نہیں سوچنا چاہئے بلکہ ان کو ملک کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہئے۔ انتخابات کے دوران بھی ملک کی ترقی اور عوام کے بنیادی مسائل پر بات ہونی چاہئے اور عوام کو بھی مذہبی یا جذباتی مسائل کے بجائے اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت اپنے بنیادی مسائل کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اب بھی بی جے پی قیادت کی ترجیح ملک میں عوام کی فلاح و بہبود ہونا چاہئے نہ کے مذہبی بنیاد پر عوام میں تقسیم۔ بہت ہو گئی سیاست اب عوام اور ملک کی ترقی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined