اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سال 2014 یعنی جب نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت مرکز میں برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت ملک کی اقلیتوں کو ایک تشویش تھی کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔ آج آٹھ سال بعد یہ تشویش دھیرے دھیرے خوف میں بدل گئی ہے۔ دادری میں فرج سے گوشت نکالنے اور اسے بیف کا نام دینے والی بھیڑ نے اخلاق کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے عناصر کے حوصلے اتنے بلند ہوئے کہ آج مختلف شکلوں میں فرقہ وارانہ جرائم خوب پھل پھول رہے ہیں۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
لنچنگ، جامعہ، سی اے اے - این آر سی احتجاج، شمال مشرقی دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات، مذہبی نعرے، کووڈ کے دوران تبلیغی جماعت، اسّی-بیس، حجاب سے ہوتے ہوئے بلڈوزر تک پہنچنے والے خوف سے اقلیتوں کی حالت اس بے گناہ مجرم جیسی ہو گئی ہے جس کے اوپر تفتیشی اہلکار ایک سے ایک ظلم کرتا ہے اور ہر نیا ظلم بے گناہ کو وقتی تکلیف تو ضرور پہنچاتا ہے، پر وہ ظلم کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر اس پر نئے ظلم کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان تمام حربوں سے اقلیتوں کو شروع میں درد ضرور ہوتا ہے اور وہ اور اس کے ہم خیال اس نئے ظلم کی چرچا بھی کرتے ہیں لیکن پھر آگے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تفتیشی اہلکار کو اپنے بے گناہ مجرم کے درد میں اتنا سکون ملتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ نہیں پاتا کہ اس کے اس عمل سے کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت بھی شائد اسی تفتیشی اہلکار کی طرح ہے جس کو اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کی حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا اور وہ اس عمل کو اپنے لئے اقتدار کی کنجی سمجھ بیٹھی ہے۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ خوف کے اس ماحول سے فی الحال بی جے پی کو فائدہ ضرور ہو رہا ہے اور اس کی اقتدار پر پکڑ بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کو کچھ ریاستوں میں کامیابی ضرور مل جاتی ہے جس کے بعد وہ مرکز کا خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ریاستی پارٹیوں کی وجہ سے مرکز میں بی جے پی کو کسی ٹھوس مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے اور اس کی اقتدار کی راہ مزید آسان ہو جاتی ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ کیا تفتیشی اہلکار کے سکون سے ووٹر کو بھی سکون مل رہا ہے یا تفتیشی اہلکار کہیں اپنے سکون کے چکر میں بے گناہ مجرم کو تو فائدہ نہیں پہنچ رہا یا اکثریتی طبقہ کی شبیہ تو خراب نہیں کر رہا۔ اگر حکومت کے فیصلوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ اس میں بے گناہ مجرم یعنی اقلیتوں کا ہی فائدہ ہو رہا ہے۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
ایک بار میں تین طلاق کے مسئلہ کو دیکھتے ہیں تو یہ اقلیتوں کے لئے بہت بڑا اصلاحی قدم ہے اور ایسا قدم ہے جس پر اقلیتیں عمل تو کرنا چاہتی تھیں لیکن چند لوگوں کے اختلافات کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو پا رہا تھا۔ اب یہ ہے کہ حکومت کے ذریعہ اس تعلق سے قانون بننے سے کوئی اختلاف بھی نہیں کر سکا اور اصلاح بھی ہو گئی۔ بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ ایک عرصہ سے ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو مکدر کر رہا تھا جبکہ اس معاملہ بھی اقلیتوں کی کوئی ضد نہیں تھی بس وہ یہ چاہتے تھے کہ دیگر عبادت گاہوں کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد جہاں مسجد کے لئے جگہ مل گئی، تنازعہ حل ہو گیا اور عدالت کے فیصلے نے بھی اس حقیقت کو اجاگر کر دیا کہ قانونی طور پر کچھ ثابت نہیں ہوا بس اس مسئلہ کو حل کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے بھی اقلیتوں کو بڑی راحت ملی۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
ایک بڑا مسئلہ لنچنگ کا ہے، جس کی وجہ سے اکثریتی طبقہ کی ملک اور بیرون ملک شبیہ خراب ہوئی، ساتھ میں گوشت کی تجارت پر اکثریتی طبقہ کا جو قبضہ تھا وہ بری طرح متاثر ہوا اور اقلیتوں کے علاقوں میں گوشت کی دوکانیں جدید ہو گئیں۔ سی اے اے - این آر سی کے احتجاج میں جو پہلو نمایاں طور پر سامنے آئے ان میں ایک تو یہ ہوا کہ اقلیتوں کی خواتین جو چہار دیواری میں قید رہتی تھیں انہوں نے احتجاج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا لوہا منوا لیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بائیں محاذ کو کھلے ذہن کا عکاس اور دماغ سمجھا جاتا ہے اس سے ملک کی اقلیتوں کی دوری تھی لیکن اس احتجاج کی وجہ سے یہ دوری پٹ گئی اور دونوں قریب آ گئے۔ کورونا وبا کے دوران تبلیغی جماعت کے ساتھ ہونے والے رویہ، فرقہ وارانہ تشدد، اسّی-بیس، حجاب، اذان اور بلڈوزر کی وجہ سے اکثریتی طبقہ کی جو شبیہ خراب ہوئی اس سے اب اکثریتی طبقہ کے ذی شعور افراد بھی پریشان ہونے لگے ہیں اور ان کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ کہیں کل کو یہ بھی کسی انجانے تشدد کا شکار نہ ہو جائیں۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
اس سارے عمل میں جہاں اقلیتوں کی شبیہ بہتر ہوئی ہے اور ان کو ایک مظلوم کی طرح دیکھا جانے لگا ہے، وہیں ملک کے اکثریتی طبقہ یعنی غیر مسلموں کی شبیہ کو لوگ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ عوام اپنے بنیادی مسائل سے بہت پریشان ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تجارت کے خراب حالات، وبا، جنگ اور اوپر سے ملک کا فرقہ وارانہ ماحول اس قدر خراب ہو گیا ہے کہ لوگ اب حکومت سے سوال کرنے لگے ہیں اور یہ بات عام ہو گئی ہے کہ پاکستان میں ضیا الحق کے دور میں جو مذہبی نشہ پیدا کیا گیا تھا کہیں ہندوستان میں بھی ویسا ہی تو نہیں ہو جائے گا۔ کہیں یہ بات تو ثابت نہیں ہو جائے گی کہ مذہب ایک افیم ہے۔ بہرحال تفتیشی اہلکار بے گناہ مجرم کو کہیں اپنے سکون کے چکر میں فائدہ تو نہیں پہنچا رہا ہے! حقیقت کچھ بھی ہو لیکن جیسا اکثریتی طبقہ یعنی غیر مسلموں کی شبیہ بنتی جا رہی ویسے وہ ہیں نہیں، اس لئے گزارش ہے کہ اقتدار کے چکر میں غیر مسلموں کی شبیہ خراب مت کیجئے!
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 May 2022, 4:11 PM IST