افغانستان میں اچانک جو کچھ ہوا اس پر پوری دنیا کو حیرانی کے ساتھ ساتھ یقین بھی نہیں آیا۔ افغانستان میں جس طرح بغیر کسی مزاحمت کے طالبان صدارتی محل میں داخل ہو گئے اور محل میں رہنے والے افغان صدر اشرف غنی وہاں سے فرار ہو گئے اس پر یقین ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ کابل کے اس واقعہ کے بعد پوری دنیا کا جو رد عمل سامنے آیا اس سے ہر ذی شعور شخص کا خوفزدہ ہونا لازمی تھا۔ طالبان کے کابل پر قبضہ تک کہیں سے کوئی خون خرابہ کی خبر نہیں آئی اور نہ ہی کوئی ایسی بڑی خبر آئی کے طالبان نے کہیں فائرنگ کی ہو یا جس کے لئے وہ بدنام ہیں کہ کہیں خواتین کے ساتھ کوئی زیادتی یا ان کی بے حرمتی کی ہو۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوا کہ کسی کو یقین ہی نہیں آیا۔
Published: undefined
طالبان کی جو شبیہ دنیا کے سامنے ہے اس کی وجہ سے افغانستان کے بڑے شہروں میں خوف پھیل گیا اور لوگ صدر کی طرح ملک چھوڑ نے کی کوشش کرنے لگے جس کے نتیجے میں کابل کے ہوائی اڈے پر کچھ لوگوں کی اس لئے جان چلی گئی کیونکہ وہ ملک چھوڑنے کے لئے ایک جہاز میں لٹک گئے، اور متعدد لوگوں کی بھگدڑ میں موت ہو گئی۔ ابھی تک جو خبریں موصول ہو رہی ہیں اس میں کہیں سے یہ خبر نہیں آئی ہے کہ طالبان نے فائرنگ کی ہو یا زیادتی کی ہو، لیکن خوف پوری دنیا میں زبردست ہے اور اس کی وجہ ان کی شبیہ ہے۔ آج وہ خود کو کتنا بھی بدلا ہوا دکھانے کی کوشش کریں لیکن ان کی شبیہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی۔
Published: undefined
ماضی پر نظر ڈالنا ضروری ہے اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کن کن ممالک نے افغانستان میں جارحیت کی، ظاہر شاہ کے دور میں کیا ہوا، سوویت یونین نے کیا کیا، اور اس کو افغانستان سے باہر نکالنے کے لئے کن ممالک نے کیا کچھ کیا، نجیب اللہ کا حشر کیا ہوا، طالبان کس نے اور کیسے بنائی، ملا عمر، صبغت اللہ مجددی، گلبدین حکمت یار کہاں گئے۔ لیکن ابھی گفتگو کو موجودہ حالات تک محدود رکھتے ہیں۔
Published: undefined
بیس سال سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج موجود تھیں اور ان کی سرپرستی میں ہی وہاں کی حکومت چل رہی تھی۔ امریکہ نے کئی مرتبہ اپنی فوج کے انخلاء کی بات کہی لیکن حالات کی وجہ سے کبھی اس پر عمل نہیں ہوا۔ امریکہ کے اندر یہ سوال تھا کہ ان کے فوجی دوسروں کی جنگ کب تک لڑتے رہیں گے اور یہ سوال دھیرے دھیرے عوامی غصہ کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ اس کی روشنی میں اور افغانستان کے حالات بہتر ہوتے دیکھ امریکہ نے اپنی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ افغان فوج کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے اور اس کی تربیت امریکی کمانڈروں کے ذریعہ ہوئی ہے۔ جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ طالبان افواج کی تعداد 80 ہزار ہے اور وہ زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہیں۔
Published: undefined
ان باتوں کو زیادہ تر لوگ جانتے ہیں لیکن یہ بات عام لوگوں کو نہیں معلوم تھی کہ تین لاکھ کی تربیت یافتہ فوج 80 ہزار کی غیر تربیت فوج کا سامنا کئے بغیر ہتھیار ڈال دے گی اور ملک کا صدر ملک چھوڑ کر فرار ہو جائے گا۔ ان حالات پر غور کیا جائے تو دو وجہ نطر آتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ افغان فوج کی ہمدردی طالبان کے ساتھ تھی اور جیسے ہی غیر ملکی افواج نے ملک چھوڑا ویسے ہی ان افواج نے طالبان کے لئے راستہ ہموار کر دیا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ نے اپنی فوج کے بل بوتے پر طالبان کو دور رکھ کر اقتدار اپنی مرضی کے لوگوں سے چلوایا اور افغان فوجیوں سے صرف گارڈ کا کام کرایا اور اسی کی تربیت دی۔ وجہ کوئی بھی ہو لیکن امریکہ یا تو پوری طرح ناکام رہا یا پھر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔
Published: undefined
افغانستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اور امریکہ کی طاقت کو نظر میں رکھتے ہوئے امریکہ کے ناکام ہونے کی خبر ہضم نہیں ہو رہی۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے جس پر کوئی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، وہ بغیر امریکہ کی مرضی کے نہیں ہو سکتا۔ کیا امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں اتنی ناکارہ ہیں کہ ان کے یہ علم میں ہی نہ ہو کہ ان کے جانے کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا، طالبان اتنی آسانی سے پورے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے اور مغربی ممالک کی کئی دہائیوں کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ بھی سوچنا غلط ہے کہ امریکہ افغانستان سے چلا گیا ہے، اس کی افواج گئی ہیں لیکن حکومت اس کی مرضی کی ہی رہے گی تاکہ اس کے اقتصادی مفادات قطعاً متاثر نہ ہوں۔ پرانی شبیہ کو دکھا کر ڈراتے ہوئے طالبان کی نئی شبیہ بنانے کی کوشش اسی جانب اشارہ ہے۔ یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے کہ افغانستان میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن ابھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ کی مرضی کا ہی ہو رہا ہے۔ چلتے چلتے یہ بات ضرور ذہن میں رکھیے گا کہ طالبان کو پیدا کر کے اس کی نشو و نما کرنے والا ملک امریکہ ہی ہے اور پاکستان کی اس میں مدد شامل حال رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز