فکر و خیالات

دوہرا معیار غالب ہے!... حمرا قریشی

میرا تو یہ خیال ہے کہ گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرنا کسی جرم کی بربریت پر مبنی سزا ہے، اس عمل سے نہ صرف مبینہ یا مشتبہ مجرم کو بلکہ اس کے پورے خاندان کو سزا دے دی جاتی ہے

<div class="paragraphs"><p>اودے پور میں بلڈوزر کے ذریعے انہدام کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>

اودے پور میں بلڈوزر کے ذریعے انہدام کا منظر / آئی اے این ایس

 
IANS

ملک میں مزید کتنے گھر بلڈوزر سے منہدم کیے جائیں گے! مزید کتنے آشیانے اجڑیں گے، مسمار ہوں گے اور تباہ ہو جائیں گے۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرنا کسی جرم کی بربریت پر مبنی سزا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف مبینہ یا مشتبہ مجرم کو بلکہ اس کے پورے خاندان کو سزا دے دی جاتی ہے۔ راجستھان کے اودے پور میں ایک گھر کو منہدم کرنے کا تازہ معاملہ تو مزید حیرت انگیز ہے جہاں کرایہ دار کی سزا مکان مالک کو مل گئی۔ کیا اس گھر کو منہدم کرنے کا کوئی جواز تھا جہاں ایک کرایہ دار کے بیٹے سے کوئی خطا ہوئی تھی۔ کرایہ دار کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے نو عمر بیٹے نے اپنے ہم جماعت پر چاقو سے حملہ کر دیا تھا۔

Published: undefined

کرایہ دار کے قصور پر مکان مالک کا گھر منہدم کیے جانے کے بعد تلخ انداز میں دیا گیا سرکاری بیان یہ ہے کہ مکان مالک کا گھر جنگل کی زمین کے ایک اَن اتھرائزڈ یعنی غیر مجاز حصے میں بنایا گیا تھا۔ حالانکہ جو حقائق سامنے آ رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مکان کو سالوں پہلے ضروری سرکاری دستاویزات کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مخصوص علاقے میں کئی مکانات اب بھی ایسے ہیں جنھیں چھوا بھی نہیں گیا، یعنی ان پر بلڈوزر کی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس سے کچھ اہم سوالات اٹھتے ہیں، مثلاً جس مخصوص گھر کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا اسے تعمیر کرنے کی منظوری کس سرکاری محکمے نے دی؟ اگر یہ گھر غیر مجاز حصے میں تعمیر ہوا تھا تو کیا محض ایک دن کے نوٹس کے ساتھ تعمیر شدہ ڈھانچہ کو منہدم کرنا غیر قانونی نہیں ہے؟ اس خاص معاملہ میں بے گھر ہوئے متاثر آٹو رکشہ ڈرائیور اپنے پورے خاندان کے ساتھ بغیر چھت کے کہاں اور کیسے زندہ رہے گا؟

Published: undefined

ایک بہت اہم بات جو یہاں دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ یہ ہے کہ گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کرنے کا عمل ایک خاص ’سیاسی ناراضگی‘ کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے معاملات دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والے دکھائی پڑتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے گھروں کو بہ آسانی ہدف بنایا جاتا ہے، اور اس طرح آنے والی نسلوں کو برباد کر دیا جاتا ہے۔ اپنے آس پاس نظر دورائیں تو اخذ کریں گے کہ دلتوں، مسلمانوں اور سماجی و معاشی طور پر پسماندہ ہندو طبقات کے گھروں پر ہی بلڈوزر چلایا گیا ہے۔

سیاسی مبصر اور مشہور یوٹیوبر بھاشا سنگھ نے اپنی ایک حالیہ گفتگو میں بہت مناسب نکتہ اٹھایا ہے۔ ان سوال ہے کہ آخر دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سزا یافتہ، زانیوں اور قاتلوں کے گھروں، جائیدادوں و ٹھکانوں پر بلڈوزر کیوں نہیں چلایا جاتا! یہ پوری طرح سے دوہرا معیار ہے!

Published: undefined

دوہرا معیار تو واقعی ہے! میرے سفر کے دوران مسلم نوجوانوں نے یکے بعد دیگرے کچھ مثالیں پیش کیں جو دوہرے معیار کو ظاہر کرتی ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر بی جے پی اپنی مسلم بہنوں کے تئیں ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے ’تین طلاق‘ جیسی سماجی برائیوں کے متعلق ’مصنوعی ہمدردی‘ ظاہر کر سکتی ہے، تو پھر وہ ورنداون اور وارانسی کی بیوہ خواتین کے لیے فکر مندی ظاہر کیوں نہیں کرتی؟ یا پھر جہیز کی وجہ سے تشدد کی شکار خواتین کی موت پر متفکر کیوں نہیں؟

آج مسلم نوجوانوں کو سب سے زیادہ یہ بات پریشان کرتی ہے کہ ہر طرف دوہرا معیار غالب ہے۔ حتیٰ کہ آزادیٔ اظہار میں بھی دوہرے معیار کا سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم مسلمان اپنی بات نہیں کر سکتے! اختلاف میں آواز بلند نہیں کر سکتے... اس سے ہم پر کوئی بھی کیس ہو سکتا ہے! ہم محلہ کے غنڈوں کی بھی تنقید کرتے ہوئے خوف کھاتے ہیں، لیکن ہندوتوا لیڈران اپنی سینا (ٹیم) بناتے ہیں اور اس کی پرورش کرتے ہیں۔ آخر کیوں صرف ہندو ہی اپنی بریگیڈ تیار کر سکتے ہیں؟ اگر مسلم طبقہ وہی کرے جو ’کرنی سینا‘ یا ’شیو سینا‘ کرتی ہے تو وہ نہ صرف گرفتار ہوں گے، بلکہ پورے خاندان کو برباد کر دیا جائے گا۔ لیکن اُن کے (کرنی سینا یا شیو سینا) ساتھ کچھ نہیں ہوتا۔ آپ خود سوچیں کہ کیا آپ نے کبھی کسی ’مسلم سینا‘ کے بارے میں سنا ہے؟

Published: undefined

مسلموں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ عصمت دری جیسے سنگین جرم میں بھی دوہرے معیار دیکھنے کو ملے ہیں۔ ان زانیوں کے ساتھ کچھ الگ ہی سلوک ہوتا ہے جو حکمراں طبقہ سے منسلک ہوتے ہیں، یا پھر وہ فسادات اور قتل عام میں زنا کا بازار گرم کرتے ہیں۔ گجرات اور مظفر نگر میں پیش آئے فسادات و قتل عام اس کی مثالیں ہیں جہاں مسلم خواتین کی عصمت تار تار کی گئی اور متاثرین کو انصاف بھی نہیں ملا۔ سیاسی مافیا کی دھمکیوں کے سبب عصمت دری کی شکار خواتین اور ان کے اہل خانہ ڈر کر خاموش بیٹھ گئے۔ زمینی حقائق تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ دوہرا معیار غالب ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined