فکر و خیالات

جمہوری پارٹیاں ’ہم آہنگی‘ کی دشمن طاقتوں سے مقابلہ کریں: گوپال کرشن گاندھی

’راجیو گاندھی نیشنل سدبھاؤنا ایوارڈ‘ سے سرفراز گوپال کرشن گاندھی نے انعام حاصل کرنے کے بعد دہلی کے ’جواہر بھون‘ میں راجیو گاندھی اور ہندوستانی جمہوریت پر اپنی رائے ظاہر کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ہم آج ایسے انسان کی یاد میں یہاں جمع ہوئے ہیں جس نے بچپن سے سرکار کے شامیانوں کو جانا تھا، حقوق کو پہچانا تھا۔ لیکن وہ انسان کچھ اپنے میں ہی رہتا تھا اور اسی اپنے پن کی وجہ سے وہ حکومت کی تنگ چھتوں کو لانگھتے ہوئے، کھلے آسمان میں اڑ رہا تھا۔ اس نے اقتدار کی کوٹھیوں کو ڈھونڈھا نہیں، بادل اس کے گھر تھے۔ کرسی کی طرف گھوم کر دیکھا نہیں اس نے – ستاروں کی گود میں وہ پلتا تھا۔ اپنی بیگم کے ساتھ اس نے چاندنی کی اوڑھنی بُنی تھی۔ لیکن تقدیر نے اس کو زمین پر لینا چاہا، اس کو تخت سونپا، تاج پہنایا۔ ساتھ ہی ملک کے لیے ایک بڑی جدید، رفتار آمیز تصویر دی، اور ملک کے باشندوں کے لیے سدبھاؤنا۔ راجیو گاندھی کے لیے سدبھاؤنا کوئی سیاسی ترکیب نہیں تھی۔ وہ کوئی طریقہ یا پالیسی نہیں تھی۔ وہ ان کے ذہن میں تھی، ان کی نسل میں، ان کی صفت میں تھی۔

سیاست میں رہتے ہوئے انھوں نے مخالفت کو پہچانا، مخالفت کا سامنا کیا اور خود بھی مخالفت کی، لیکن دشمنی سے وہ دور رہے۔ مخالفت ایک بات ہوتی ہے، دشمنی ایک اور۔ اختلافات ایک بات ہوتی ہے، ملک دشمنی ایک اور۔ دشمنی وہ کرتے ہیں جو پیار میں اپنا موقع دیکھتے ہیں، اس سے سودا کرتے ہیں۔ تو آ میرے ساتھ، تو ہٹ مجھ سے پرے۔ دوستی وہ نبھاتے ہیں جو پیار میں قدرت کا دیدار کرتے ہیں، انسانیت دیکھتے ہیں، پیار کی تقسیم نہیں پیار میں اضافہ، اس کا بڑھنا دیکھتے ہیں۔

انگریزی میں سدبھاؤنا کا مطلب ہے harmony (ہم آہنگی)۔

لیکن کس طرح کی ہم آہنگی؟ ہم لوگ ہم آہنگی کے کئی پہلوؤں اور اس کے مطلب کے پار جا چکے ہیں۔ آج سدبھاؤنا آپس میں سب بھائی بھائی سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔ ہر ہندوستانی اس پرانے خیال سے واقف ہیں۔ سُر ملانا ہے ہمیں آج بھی۔ لیکن کیسے اور کون سا سُر؟ ہاں میں ہاں ملانے والے سُر نہیں۔ جی حضوری، ٹھکر-سُہاتی کے سُر نہیں۔ ’جی ہاں، جی بالکل‘ والے خوف کا سُر نہیں۔ خوف سے دبے ہوئے نرم گندھار میں نہیں۔ لیکن ان آوازوں میں جو اچھے کو اچھا کہنے میں کمال ہوں، برے کو برا کہنے میں تیز ہوں۔

Published: undefined

آج سدبھاؤنا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقتدار کے ساتھ قدم سے قدم ملایا جائے۔ سدبھاؤنا برے سُروں سے تال میل نہیں بٹھا سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہر وقت اقتدار سے سچائی کہنا ہونا چاہیے، خاص طور سے اناپرست اقتدار سے۔ اور سدبھاؤنا کا مطلب یہ بھی ہونا چاہیے کہ سچائی کو عوام تک لے جایا جائے جو اپنی طرح سے اسے پہلے سے ہی جانتے ہیں اور کہتے ہیں ’سجن رے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے...‘۔ ہمت کے ساتھ سچ کہنے سے زیادہ کسی اور چیز میں سدبھاؤنا نہیں ہو سکتی۔

سدبھاؤنا سکھاتی ہے: جھوٹے ہر جگہ ملیں گے، اپنوں میں بھی۔ سچے ہر جگہ ملیں گے، غیروں میں بھی۔ اگر اپنوں میں کوئی غلط کام کرے تو ہمیں اسے روکنا چاہیے۔ اگر غیروں میں کوئی صحیح کرے تو اس کی تعریف کرنی چاہیے، اور تو اور خود سے غلطی ہو جائے تو اس کا اعتراف کر درست کرنا چاہیے۔ گاندھی، نہرو سے یہی سیکھا ہے ہم نے۔ جے پرکاش نارائن سے بھی۔ یہی سدبھاؤنا ہے۔ جب جواہر لال جی کا انتقال ہوا تب راجہ جی جو ان کی مخالفت کر رہے تھے، بولے ’’وہ ہمارے درمیان سب سے زیادہ مہذب تھے۔‘‘ اٹل جی کا دیا ہو اس وقت کا پیغام سب سے زیادہ دل کو چھونے والا تھا۔ انھوں نے کہا ’’دلتوں کا سہارا چھوٹ گیا۔‘‘

سدبھاؤنا آسان نہیں۔ اس میں بھولاپن نہیں، بڑپّن ہے۔ اس کی خودداری اس کے ایمان میں ہے۔ ہندوستان کی خوبی یہی ہے کہ اس کو یہاں بہلایا جا سکتا ہے، وہاں بہکایا جا سکتا ہے لیکن اس کی ذات کو، اس کے اندرون کو، اس کی روح کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ کاشی میں اس کی فجر اور بنارس میں صبح کی خوش آمد ہوتی ہے۔ وہ پریاگ کا استعمال کرتا ہے اور الٰہ آباد کا پریوگ (استعمال)... اپنی سدبھاؤنا کی ایک سانس میں۔

Published: undefined

جب گاندھی جی نے ایشور-اللہ تیرے نام گایا وہ ہمیں سدبھاؤنا کی کنجی دے رہے تھے۔ روحانی، سیاسی اور تہذیبی۔ اور وہ اسے عقیدت کے ساتھ نہیں کر رہے تھے بلکہ خطرہ اٹھاتے ہوئے ہمت کے ساتھ کر رہے تھے۔ جب کٹرپسندی چاقو، گولی کی شکل میں موجود تھی، اس وقت ان لفظوں کی ادائیگی ہمت کا مطالبہ کرتی تھی۔ یعنی سدبھاؤنا کا ایک اور مطلب ہوتا ہے ’ہمت‘۔ کمزور، دبے کچلے، مظلوم لوگوں کے حق میں لڑنے کے لیے یہ غیر تشدد اور غیر سمجھوتہ پرست ہمت تھی۔ اور سدبھاؤنا کا ایک مطلب قدرتی آفات کے چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے ساتھ آنا بھی ہے۔ کیرالہ کے سیلاب نے ہم سب کو جھنجھوڑ دیا ہے لیکن انھوں نے خود تیزی کے ساتھ سدبھاؤنا کی طاقت بھی دکھائی ہے۔ اسی طرح دہشت، برے ارادوں سے چلنے والے، مسلح دہشت ہمیں جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ ریاست لچکدار انداز میں اس انہدامی قوت کو روکنے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ لیکن ہمیں یعنی عوامی سماج کو دہشت کی تقسیم کرنے والی طاقت اور پولرائزیشن کی کوششوں کو شکست دے کر اپنا رد عمل ظاہر کرنا ہوگا۔

وہ سبھی لوگ جو زبردستی، کٹرپسندی، نفرت اور خوف، اقتدار کی مرکزیت، بڑے اقتدار اور بڑی پونجی کے گٹھ جوڑ کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نجی اور تنظیمی انا کو کنارے رکھنا چاہیے۔ چاہے لیڈر ہو یا کوئی پارٹی یا کوئی طبقہ، سب کو ایک بڑپّن دکھانا ہوگا۔ ایک دوست پر رحم کرنے کے لیے اپنے بھائی اور بہن کو منع کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ لال بہادر شاستری نے کہا تھا ’’جب ملک کے لیے ہَون ہوتا ہے تب بڑے ہاتھ کو بڑی آہوتی دینی پڑتی ہے۔‘‘ انتہائی نرمی اور شکریہ کے ساتھ راجیو گاندھی سدبھاؤنا ایوارڈ لیتے ہوئے میں یہ امید کرتا ہوں کہ جمہوری پارٹیاں اور ہندوستان کی تحریک اپنی ہوشمندی، تیزی کے ساتھ اور اپنی مضبوطی کو متحد کرتے ہوئے سدبھاؤنا کی مخالف قوتیں اندیشہ، کٹرپسندی اور تشدد کا مقابلہ کریں گے۔

نفرت کے جبر کا مقابلہ سدبھاؤنا کے ضرب سے کرنا ہوگا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined