میرے بہت ہی قریبی عزیز عید الضحی کے چند روز بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئےاور دنیا سے رخصتی کی وجہ وہی وبا رہی جس کی وجہ سے یہ سال، سال نہ رہا۔ زندگی کے آخری دن انہوں نے جس بہن کےگھرپر گزارے وہ بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئیں اور اللہ کا بڑا کرم رہا کہ کافی لمبے علاج کے بعد وہ صحت یاب ہو گئیں اور اب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ کوروناوائرس کے یہ دو معاملے بالکل گھر میں ہی ہوئے اس لئے اس وائرس سے منکر بھی نہیں ہو سکتا۔ میرے عزیز جن کا انتقال ہوا ان کی صحت ایسی تھی کہ جو دیکھتا تھا وہ رشک کرتا تھا، لیکن چند دنوں میں بیماری ہوئی بھی اور اس بیماری میں ان کی موت بھی ہو گئی۔
Published: undefined
کورونا وبا کے دور میں جب بڑی تعدادمیں مہاجر مزدوروں کو بغیر کسی ضابطہ پر عمل کئے بڑے شہروں سے گھر کی جانب جاتے دیکھا تو لگا کہ یہ سب تو وائرس کیریر ہیں اور یہ خود تو بیمار ہوں گے ہی، ساتھ میں اپنے گاؤں کی بڑی آبادی کو بھی متاثر کریں گے۔ اس سوچ کی وجہ ذرائع ابلاغ میں آنےوالی خبریں، سوشل میڈیا پر گشت کرنے والے پیغامات، ایک خاص فرقہ کو کورونا پھیلانے والے کے طور پر پیش کرنا اور اسی بنیاد پر یہ طے کرنا کہ کس فرقہ کے لوگوں سے سبزی لی جائے گی اور کس سے نہیں۔ بہر حال دھیرے دھیرے حالات بہترہونے لگے اور خود ہندوستان میں ایک لاکھ کے قریب یومیہ کیس آنے کے بعد اب تعداد بہت نیچے آ گئی ہیں۔ اعلان شدہ لاک ڈاؤن اور خود پر تھوپے ہوئے لاک ڈاؤن کی وجہ سےجو اقتصادی اور سماجی صورتحال خراب ہوئی، تو لوگوں نے مجبوراً ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔
Published: undefined
پوری دنیا میں کس طرح یہ وبا پھیلی، اور جس ملک اور جگہ کو اس وبا کے پھیلنےکی وجہ بتایا گیا وہاں چند دنوں میں قابو پا لیا گیا، اورانہوں نے اندرونی طور پر سب کچھ ایسے ہی ٹھیک کر لیا جیسے دیگر بیماریوں کو ٹھیک کر لیا جاتا ہے۔ بس اس میں یہ کہ انہوں نے جو اقدامات اٹھائے وہ جنگی پیمانہ کے تھے۔اس بیماری سےدس سال پہلے ’کنٹیجن‘ نامی ایک انگریزی فلم آئی تھی اور لگا کہ جیسے فلم کو حقیقت میں کسی نے اتار دیا ہو۔ جی! کسی نے حقیقت میں اتار دیاہو۔ حالات دیکھ کرایسا خود بخود نکل جاتا ہے۔ یہ وائرس ضرورت ہے یا واقعی کوئی مہلک وائرس ہے یا میڈیا کا سہارا لےکر یہ سب کچھ منصوبہ بند پروپیگنڈا تھا؟ ہم جب متضاد اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ایسا یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ یہ وائرس منصوبہ بند پروپیگنڈا ہے۔
Published: undefined
اس بیماری کے بعد جس طرح مغرب، بالخصوص امریکہ اور چین آمنے سامنے نظر آئے وہ قابل غور ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تو اس وائرس کا نام ہی چینی وائرس رکھ دیا تھا۔ جس ملک میں انسانی جان کی بہت زیادہ اہمیت نظر آتی ہے وہیں پر سب سے زیادہ کیسز اور سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔ اس بیماری کے بیچ ملک کی معیشت کھڑی رہی، تھوڑی بہت بےروزگاری کی چرچا ہوئی لیکن اس پر بھی کوئی بے چینی نظر نہیں آئی اور صدارتی انتخابات بھی ہو گئے۔
Published: undefined
کورونا وبا کے بعد پوری سماجی دنیا بدل گئی۔ دفتر کے کام، تعلیم کی حصولی اور شاپنگ وغیر ہ، یعنی زندگی کےہر اہم شعبہ میں آن لائن کی دخل اندازی ہوگئی۔ اس سے کن لوگوں کو فائدہ ہوا اور کن لوگوں کو نقصان ہوا اس پر اگر غور کریں تو لگتا ہے کہ مانو یہ وائرس کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہو۔ دنیا کی کچھ بڑی کمپنیوں نے ایک خاص شعبہ میں سرمایہ کاری بڑھا دی اورغریب سڑکوں پرآ گیا۔ جس کام میں ان کمپنیوں کو آن لائن کرنےمیں سالوں لگ جاتے وہ چند مہینوں میں ہو گئیں اور بیماری کی وجہ سے کہیں ناراضگی بھی نہیں ہوئی بلکہ اس کو مجبوری سمجھ کر سب نے خوشی خوشی اپنا لیا۔
Published: undefined
اس کے اثرات پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں نوٹ بندی کے فیصلہ پر بھی نظر ڈالنی چاہئے۔ نوٹ بندی میں غریبوں نے لائن میں لگ کر اپنے پیسہ بدلوائے تھے اور ان کو یہ امید تھی کہ اس سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی اور نہ جانے ملک ترقی کر کے کہاں پہنچ جائے گا۔ غریب اور چھوٹی صنعت والا مارا گیا اور مزید غریب ہوگیا۔ چھوٹی دوکان یا کارخانہ چلانے والا مزدوری کے لئے دروازہ کھٹکھٹا نے لگا لیکن سینسیکس کبھی نیچے نہیں آیا۔ کورونا وائرس سرمایہ داروں کی اتنی زبرد ست منصوبہ بندی ہے کہ اس میں پوری دنیا بدل گئی اور سب نے اس تبدیلی کو مجبوری اور ضرورت کے طور پر دل سے ویسے ہی اپنا بھی لیا جیسے ہندوستان نے نوٹ بندی کو اپنا لیا تھا۔
Published: undefined
اب نو مہینے بعد لگتا ہے کہ پوری دنیا کو ٹھگ لیا گیا اور نیا نارمل یعنی نئی طرز زندگی کو انسانی زندگی کا حصہ بنا دیا گیا۔سری لنکا میں کورونا وائر س نہ کے برابر، پاکستان میں بغیر احتیاط برتے کورونا وائرس کا زیادہ اثر نہیں اورافریقہ کے غریب ملکوں میں کورونا کااثر نظرنہیں آتا۔ ان سب اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد لگتاہے کہ جن ممالک میں ٹیکنالوجی کی دخل کی فوری ضرورت تھی، وہ ہدف سرمایہ داروں نے حاصل کر لیا ہے۔ اور جہاں ابھی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ان کے پاس اس کے لئے سرمایہ ہے اسے چھوڑ دیا ہے۔ ان کو قابو پانے کے لئےاب تمام ڈاٹا آن لائن حاصل کر لیا جائے گا اور وہ بڑی کمپنیاں خود کر لیں گی۔ میں کیوں نہ کہوں کہ پوری دنیا ایک منصوبہ بند طریقہ سے کچھ سرمایہ داروں نے بدل دی ہے اور مزہ کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے خوشی خوشی اس تبدیلی کو سینے سے لگا بھی لیا ہے اور مجھ جیسے بھی اس وائرس کے منکر نہیں ہوئے۔ آنےوالے دن غریبوں اور متوسط طبقہ کے نہیں ہوں گے، وہ بیچارے مزید غریب ہو جائیں گے اور چند سرمایہ داروں کی چاندی ہو جائے گی اور ہوتی رہےگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز