فکر و خیالات

یومِ آئین: دیہی خودمختاری، مقامی حکومتی اختیارات اور آئینی اصلاحات کی جدوجہد

توقع کی گئی تھی کہ ریاست گرام پنچایتوں کا قیام کرے گی اور انہیں ایسے اختیارات فراہم کرے گی جو انہیں خودمختار اکائیوں کے طور پر کام کرنے کے قابل بنائیں لیکن اس آئینی ہدایت پر عملدرآمد نہیں ہو سکا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

گاندھی جی نے 15 اگست 1947 کو کہا تھا کہ ’’میرے خوابوں کا ہندوستان سات لاکھ گاؤں کا گن راجیہ (جمہوری نظام) کا اتحاد ہوگا۔‘‘ یعنی ملک میں سات لاکھ گاؤں میں جمہوری حکمرانی قائم ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل 40 کے تحت توقع کی گئی کہ ریاست گرام پنچایتوں کا قیام کرے گی اور انہیں ایسے اختیارات دے گی جو انہیں خودمختار اکائیوں کے طور پر کام کرنے کے قابل بنائیں۔ لیکن حکومتیں اس آئینی ہدایت کو نافذ کرنے میں ناکام رہیں۔

انسانی سماج کی ابتدا میں زراعت نے معاشرتی و ثقافتی ڈھانچے کی بنیاد رکھی، جو گاؤں کی شکل میں منظم ہوا۔ تاہم، شہروں کی ترقی نے گاؤں کی اہمیت کو کم کر دیا۔ گاؤں، جو کبھی پیداوار کے مرکز تھے، آہستہ آہستہ پسماندگی کا شکار ہو گئے۔ آج ان کی خودمختاری کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں محض انتظامی اکائیوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ ریاست اور مرکز کی حکومتیں گاؤں کی فلاح و بہبود کے دعوے کرتی ہیں لیکن انہیں فیصلہ سازی کے حق سے محروم رکھتی ہیں۔

Published: undefined

1952 میں پنڈت جواہر لال نہرو نے قبائلی نظام کے لیے ’پنچ شیل‘ اصول متعین کیے، جن میں اپنی روایات کے مطابق آزادانہ نظم و نسق کا حق شامل تھا۔ 1956 میں بلونت رائے مہتا کمیٹی نے تین سطحی پنچایتی نظام کی سفارش کی لیکن گرام سبھا کو اختیارات دینے کی تجویز نظرانداز کی گئی۔ بعد ازاں، 1978 میں اشوک مہتا کمیٹی کے سامنے قبائلی علاقوں کے لیے گرام سبھا کو مکمل خودمختاری دینے کی تجویز پیش کی گئی، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔

معروف گاندھیائی کارکن سدھراج ڈھڈّا نے گرام سبھا کو پنچایتی نظام کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بغیر جمہوری وکالت ممکن نہیں اور جمہوریت کمزور ہو جائے گی۔ آج کے حالات میں، گاؤں کی خودمختاری بحال کرنے کے لیے گرام سبھا کے کردار کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔

Published: undefined

1988 میں راجیو گاندھی کی قیادت میں آئین میں ترمیم کے ذریعے پنچایتی راج کے قیام کا منصوبہ پیش کیا گیا، جس میں قبائلی علاقوں کو اس نظام سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ ان علاقوں کے لیے خصوصی انتظامات کی ذمہ داری متعلقہ گورنرز پر ڈالی گئی، لیکن اس بل کو پارلیمنٹ کی منظوری نہیں مل سکی۔ 1990 میں، شیڈیولڈ کاسٹس اور شیڈیولڈ ٹرائبز کے کمشنر ڈاکٹر برہم دیو شرما نے صدر جمہوریہ کو اپنی 29ویں رپورٹ پیش کی، جس میں قبائلی علاقوں میں مکمل خودمختاری کی سفارش کی گئی تھی تاکہ مقامی وسائل کا تحفظ اور آزادانہ استعمال ممکن ہو سکے۔

1993 میں آئین کی 73ویں ترمیم کے ذریعے پنچایتی راج کا نظام متعارف کروایا گیا، جس میں گرام سبھا کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا، لیکن اس کے اختیارات اور فرائض کو ریاستی اسمبلیوں پر چھوڑ دیا گیا۔ شیڈیولڈ علاقوں کو اس عام نظام سے الگ رکھا گیا، لیکن آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت پارلیمنٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ ان علاقوں کے لیے ضروری ترامیم کے ساتھ قوانین نافذ کرے۔

Published: undefined

1995 میں، دلیپ سنگھ بھوریا کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی، جس میں خاص طور پر شیڈیولڈ علاقوں میں گرام سبھا کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اسی دوران، ان علاقوں میں انتخابات کو آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے غیر آئینی قرار دے دیا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔

1996 میں، پارلیمنٹ نے قبائلی علاقوں کے لیے پیسا قانون منظور کیا، جسے 24 دسمبر 1996 کو صدر نے منظوری دی۔ یہ قانون شیڈیولڈ علاقوں میں پنچایتی راج کو مقامی خودمختاری کے ساتھ نافذ کرتا ہے، جس سے ان کے وسائل کے استعمال اور تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ پیسا قانون قبائلی علاقوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے، جو گاؤں کی خودمختاری اور گرام سبھا کے اختیارات کو بحال کرتا ہے۔

Published: undefined

شیڈیولڈ علاقوں میں پیسا قانون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاستی حکومتوں کو قوانین بنانا تھے لیکن بیشتر ریاستوں نے اس عمل میں سستی کا مظاہرہ کیا۔ مدھیہ پردیش حکومت نے 26 سال بعد 15 نومبر 2022 کو اس کے لیے قواعد و ضوابط نافذ کیے۔ دوسری جانب، حکومت نے قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے قبائلیوں کے حقوق کو نظرانداز کیا۔

قبائلی برادریوں نے آئینی حقوق کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبوں کے خلاف احتجاج اور قراردادیں پاس کیں، لیکن ریاستی انتظامیہ نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے غیر آئینی طریقوں سے کارپوریٹ مفادات کو تقویت دی۔ 14 اور 15 ستمبر 2024 کو مالاج کھنڈ، بالاغاٹ میں پانچویں شیڈیولڈ والے ریاستوں کے قبائلی نمائندوں اور تنظیموں کے اجلاس میں پیسا قانون کے نفاذ میں موجود مسائل اور کمیوں کو دور کرنے پر زور دیا گیا۔

Published: undefined

پیسا قانون کی شق 4(گ) کے تحت گرام حکومت اور خودمختار ضلعی حکومتوں کے قیام کے لیے اختیارات کی منتقلی پر زور دیا گیا، تاکہ مقامی وسائل کا انتظام اور مالیاتی کنٹرول قبائلی برادریوں کے ہاتھ میں ہو۔ مزید یہ کہ، گرام سبھاؤں کو مقامی تنازعات کے حل کے لیے عدالتی اختیارات دیے جائیں تاکہ پولیس اور انتظامیہ ایسے معاملات گرام سبھاؤں کے سامنے پیش کریں۔ اپیل کے لیے بھوریا کمیٹی کی سفارشات کے مطابق قوانین وضع کیے جائیں۔

دستور کی 11ویں شیڈیول میں پانی، جنگلات، معدنیات اور انصاف کی فراہمی جیسے موضوعات شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیسا قانون کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو۔ آندھرا پردیش کے 1970 کے شیڈیولڈ ایریا لینڈ ٹرانسفر ریگولیشن کی طرز پر دیگر ریاستوں میں زمینی قوانین میں ترمیم کی جائے۔ یہ اقدامات شیڈیولڈ علاقوں میں شفافیت، خودمختاری اور آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہیں۔

(مضمون نگار راج کمار سنہا برگی ڈیم مہاجرین و متاثرین کی انجمن سے وابستہ ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined