فکر و خیالات

بہرائچ تشدد: قومی یکجہتی کے ضلع میں فرقہ پرستی کی آگ... عبید اللہ ناصر

بہرائچ میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد سیاسی مفادات کے تحت سازش کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی اور فساد میں جان بوجھ کر اشتعال پھیلانے کا دعویٰ کیا گیا ہے

<div class="paragraphs"><p>بہرائچ میں آگ زنی کے بعد دھواں ہی دھواں، ویڈیو گریب</p></div>

بہرائچ میں آگ زنی کے بعد دھواں ہی دھواں، ویڈیو گریب

 

اتر پردیش کا بہرائچ شہر اور اس کا پورا ضلع سید سالار مسعود غازی کی مزار کے لیے مشہور ہے۔ سید سالار مسعود غازی ایک عظیم صوفی بزرگ اور سپہ سالار تھے جن کی مزار کو تمام مذاہب کے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا سالانہ عرس مشرقی اتر پردیش اور پورے ہندوستان کے عقیدت مندوں کے لیے ایک اہم موقع ہوتا ہے، جس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم زائرین بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع کو 'بالے میاں کا بیاہ' بھی کہا جاتا ہے اور اسے اودھی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

عرس کی رسومات نہ صرف مذہبی عقیدت کی مظہر ہیں بلکہ یہ اودھی تہذیب اور کلچر کے عظیم مظاہرے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومتوں نے سید سالار مسعود غازی کو بدنام کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے بہرائچ کے تاریخی اور مذہبی ورثے کے برخلاف بھر راجہ سوہل دیو کو ہیرو بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے، جو سید سالار مسعود کے ہاتھوں شکست کھانے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

Published: undefined

آر ایس ایس اور بی جے پی نے سید سالار مسعود کے مقابلے میں سوہل دیو کو نمایاں کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ سوہل دیو کے نام پر میلے اور سیاسی جلسے منعقد کرنا۔ ایک سیاسی پارٹی بھی ان کے نام پر تشکیل دی گئی اور یہ پارٹی اتر پردیش کی کابینہ میں شامل ہوئی۔ لیکن، بالے میاں کا بیاہ اور سید سالار مسعود غازی کے عقیدت مندوں میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس عرس میں ہر سال ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں اور اس عقیدت کے سلسلے کو زندہ رکھتے ہیں۔

تاہم، اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علاقے میں حال ہی میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر دوڑ گئی۔ اس واقعے کو فرقہ وارانہ فساد یا دنگا کہا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں یہ نہ دنگا تھا اور نہ ہی روایتی فساد، بلکہ یہ ایک سیاسی سازش تھی جس کا مقصد فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹوں کا حصول تھا۔

Published: undefined

بہرائچ میں ایک درگا وسرجن کا جلوس مسلم محلے سے گزرا۔ جلوس میں شامل لوگ ڈی جے پر انتہائی اشتعال انگیز گانے بجا رہے تھے، اور اس دوران پولیس تماشائی بنی رہی۔ ایک نوجوان، رام گوپال مشرا، جو اس جلوس کا حصہ تھا، ایک مسلمان کے گھر میں زبردستی گھس گیا اور عید میلاد النبی کے سبز پرچم کو اکھاڑ کر وہاں بھگوا جھنڈا لہرانے لگا۔ پولیس کی موجودگی کے باوجود، اسے روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

جب گھر والوں نے رام گوپال کو روکا اور اسے گولی مار دی، تو پولیس نے پھر بھی کارروائی کرنے میں تاخیر کی۔ رام گوپال کی موت کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے، اور اگلے دن علاقے کے مختلف گاؤں میں مسلح گروہ لوٹ مار کرنے لگے۔ مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں کو نذرِ آتش کیا گیا، اور ان کے مویشیوں کو لوٹ لیا گیا۔ پولیس نے ان واقعات کو روکنے کے بجائے، الٹا مسلمانوں کو ہی گرفتار کر لیا۔

یہ فرقہ وارانہ فساد کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک منظم سازش تھی جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا۔ اتر پردیش میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے پیش نظر، فرقہ وارانہ تنازعے پیدا کر کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بہرائچ جیسے علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑکایا گیا ہو۔ 2002 کے گجرات دنگوں کے بعد سے، ملک بھر میں ایک نیا ماڈل اپنایا گیا ہے جس میں ایک طرفہ کارروائی کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے، ان کی مساجد کے سامنے سے گالیاں دی جاتی ہیں، اور جب وہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بہرائچ میں بھی یہی ماڈل اپنایا گیا۔ درگا وسرجن کے جلوس میں اشتعال انگیزی کی گئی، اور جب مسلمان اس پر اعتراض کرتے ہیں، تو انہیں ہی حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رام گوپال مشرا کے قتل کے بعد، پورے ضلع میں لوٹ مار اور تشدد کا بازار گرم ہو گیا۔

ہندوستان کی سیاست میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا کھیل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہمیشہ مذہبی تقسیم کو ہوا دے کر سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب تک نہرو، پٹیل، آزاد اور امبیڈکر جیسے رہنما ملک کی قیادت کرتے رہے، ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کسی نہ کسی طرح برقرار رہی۔ فسادات ہوئے، جان و مال کا نقصان ہوا، لیکن دلوں میں دراڑیں نہیں پڑیں۔

Published: undefined

لیکن اجودھیا تحریک کے بعد سے، حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ دلوں کی دوریاں اور ذہنوں کی دراڑیں وسیع ہوتی جا رہی ہیں، اور اس نفرت کی سیاست میں مسلمان ہمیشہ نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ غیر بی جے پی پارٹیاں بھی مسلمانوں کے ووٹ تو حاصل کرنا چاہتی ہیں، لیکن ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

بہرائچ کے حالیہ فساد میں بھی یہی دیکھا گیا۔ اب تک کسی بھی سیاسی جماعت نے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نہیں بھیجی، نہ ہی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ بہرائچ کے علاوہ بارہ بنکی اور کچھ دیگر اضلاع سے بھی ویسی ہی خبریں موصول ہو رہی ہیں، لیکن وہاں پولیس نے بروقت کارروائی کر کے حالات کو بے قابو نہیں ہونے دیا۔

Published: undefined

یہ سیاسی کھیل ملک کے مختلف حصوں میں جاری ہے، اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ راہل گاندھی کے مطابق، سنگھ پریوار نے پورے ملک میں نفرت کا کیروسین چھڑک دیا ہے اور اب ایک معمولی چنگاری بھی پورے ملک کو آگ میں جھونک سکتی ہے۔

بہرائچ کا فساد اور اس جیسے دیگر واقعات ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورتِ حال کا مظہر ہیں۔ یہ واقعات صرف فرقہ وارانہ نہیں، بلکہ منظم سیاسی سازشیں ہیں جن کا مقصد ملک کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ کی طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور انہیں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مشترکہ تہذیب کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ یہ آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined