آج سے لگ بھگ دو صدی قبل جب انگریز ماہر تعلیم لارڈ میکالے نے ہندوستانی قوم کے لیے ایک جدید نظام تعلیم وضع کیا تھا تو اس کی منشاء بہت صاف تھی۔ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نظریات کے عین مطابق ایک ایسی نسل تیار کرنی تھی جو رنگ اور نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہونے کے باوجود طرز فکر کے لحاظ سے انگریز ہو۔ وضاحت کی قطعی ضرورت نہیں کہ آزادی کے 70 سالوں بعد میکالے کا یہ نظام تعلیم ہندوستانی معاشرہ کو اپنے حصار میں لے چکا ہے۔ اور نہ صرف طرز تعلیم بلکہ ہماری طرز معاشرت بھی پوری طرح سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ چکی ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ مغرب کی اس فکری یلغار سے سب سے زیادہ متاثر وہ قوم ہوئی ہے جسے خالق کائنات نے دنیا کی رہنمائی کے لیے بھیجا تھا جسے اس کا منصب یاد دلاتے ہوئے کبھی اقبالؔ نے کہا تھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
Published: undefined
مشرق کے اوپر مغرب کی اس تہذیبی یلغار کے اثرات کتنے دور رس ہوں گے اس کا اندازہ اقبال کے پیش رو اکبر الٰہ آبادی کو بہت پہلے ہو گیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی مشہور نظم ’مستقبل‘ میں نہایت واضح طور پر صراحت کر دی تھی کہ جدید مغربی تعلیم مشرق کے تہذیبی افتخار کو کس طرح سبوتاز کر کے رکھ دے گی۔
یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے
Published: undefined
موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی کہ ہم ایسے لوگوں کے درمیان زندہ ہیں جو اسلامی شعار ترک کر کے مغرب کے لادینی نظام حیات کی پیروی پر نازاں ہیں اور اسے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی علامت تصور کرتے ہیں۔ مشرقی کی تہذیبی روایات سے محروم اس جدید معاشرہ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جنوبی ہند کے ایک کالج کے گیٹ پر قوم کی چند باغیرت بیٹیاں حجاب کی عظمت کی خاطر مسلسل کئی دنوں سے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں، اور زعفرانی ذہنیت کی حامل کالج انتظامیہ محض عصبیت کی بنا پر انھیں کالج میں داخل ہونے سے روک کر انھیں ان کے آئینی و دستوری حق سے محروم کر رہی ہے۔
Published: undefined
میں اس تلخ نوائی پر اس لیے مجبور ہوا کیونکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود اڈوپی کالج کی ان غیور مسلم طالبات کے حق میں چند ایک کے سوا کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ ہماری نام نہاد ملی قیادت اور دانشوروں کی پوری جماعت خواب غفلت میں پڑی سوتی رہی۔ یہ غفلت کی نیند اس وقت ٹوٹی جب طاغوتی نظام کے سامنے آہنی چٹان بن کر ڈٹی ہوئی وہ غیور مسلم طالبات اللہ کی تائید و نصرت سے فتحیاب ہو گئیں۔ کالج انتظامیہ نے ان کے جائز مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انھیں حجاب کے ساتھ کلاس روم میں داخلے کی اجازت دے دی۔
Published: undefined
یقیناً دین پسند طبقے کے لیے یہ ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ لیکن جنوبی ہند کی اسلام پسند خواتین کی دینی غیرت کے اس مہتم بالشان مظاہرہ کو اگر مستثنیٰ کر دیں تو اسلامی شعار کی آئے دن ہونے والی ناقدری کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم نے ایک زندہ امت ہونے کا کبھی احساس ہی نہیں کرایا۔ ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ آخر کیوں بار بار ہماری نظروں کے سامنے دینی احکام کا مذاق اڑایا جاتا ہے؟ کیوں اسلامی حجاب جیسے مذہبی شعار کو پسماندگی کی علامت قرار دیا جاتا ہے؟ اس طرح کے سوالات کا جواب صرف یہ ہے کہ ہم نے دین کو اپنی زندگیوں سے نکال دیا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل آئیے مسئلہ حجاب کے متعلق قرآن کی گواہی سنیں:
Published: undefined
Published: undefined
قرآن کے اس بیان کی روشنی میں اگر ہم اپنا احتساب کریں تو آنکھیں اشک ندامت سے بھر اٹھیں گی۔ ہم نے جدید زندگی کی چمک دمک میں کھو کر دین رحمت اسلام کو خود سے کتنا اجنبی کر دیا کہ آج ہمیں دنیا کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ حجاب کرنا شریعت کا حکم ہے کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں۔ واضح ہو کہ حجاب کے مسئلہ پر اب اڈوپی کالج کی انقلابی مسلم بیٹیوں کی حمایت میں ریاست کرناٹک کے تمام دین پسند طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ مسئلہ کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے 8 فروری کو کرناٹک ہائی کورٹ میں معاملہ کی سماعت ہوئی اور ’آج تک‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق عدالت عالیہ نے قرآن حکیم کی ایک کاپی منگوا کر یہ پوچھا کہ ’’کیا قرآن میں یہ لکھا ہے کہ حجاب ضروری ہے؟‘‘ جواب میں عرضی دہندہ کے وکیل نے سورہ نور کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہاں ہیڈ اسکارف (حجاب) کا ذکر موجود ہے۔
Published: undefined
مذکورہ کالج میں ہی 8 فروری کی صبح پیش آئے ایک غیر معمولی واقعہ نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 8 فروری کو ایک باحجاب مسلم طالبہ مسکان اپنا اسائنمنٹ جمع کرنے کالج میں داخل ہوئی۔ اچانک ہی دوسری جانب سے زعفرانی پٹہ لگا کر پچاسوں غیر مسلم طلبا ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور اس مسلم طالبہ کو اندر جانے سے روکنے لگے۔ وہ بہادر لڑکی پہلے تو خاموشی کے ساتھ یہ سب دیکھتی رہی، پھر اچانک ہی پلٹ کر زور زور سے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ بعد ازاں کالج انتظامیہ نے اسے اپنی حفاظت میں لے کر کلاس روم تک پہنچا دیا۔ اپنے مذہبی شعار کے تئیں مسکان خان کے اس جذبۂ وارفتگی نے خیرالقرون کی مجاہد مسلم خواتین کی یاد ذہنوں میں تازہ کرا دی ہے۔ اپنے راسخ ایمان کے اس عدیم المثال مظاہرہ سے قوم کی اس طالبہ نے نہ صرف دشمنان دین کو حیران و ششدر کر دیا ہے بلکہ ان تمام مسلم خواتین کو عزم اور حوصلہ عطا کیا ہے جو اب تک مسئلہ حجاب کو لے کر تذبذب کا شکار تھیں۔
Published: undefined
امید ہے کہ اڈوپی کالج کی انقلابی مسلم طالبات کے ذریعہ برپا کی گئی یہ تحریک آئندہ ہزاروں مسلم خواتین کے لیے مشعل راہ بنے گی اور ان جدید طرز فکر کی حامل خواتین کو بھی دعوت احتساب دے گی جو اسلامی حجاب سے محروم ہو کر زندگی جینے کو آزادی تصور کرتی ہیں۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
(مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاذ ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز