جنگ بندی پر خوشی کا اظہار تو کرنا بنتا ہی ہے۔ جنگ اذیت اور موت کا دوسرا نام ہے اس لئے اس کا بند ہونا انسانیت اور جنگ میں ملوث افراد اور قوموں کے لئے ایک راحت کی خبر ہے۔ جیسے بہت سے مفکر کہہ چکے ہیں کہ جنگ میں کسی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کی شکست ہوتی ہے۔ خو د کو مہذب کہنے والے ہم لوگ اپنی انا، اپنی حکمرانی، اپنی طاقت کے اظہار کے لئے متعدد لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اس عمل سےکتنے ہی بچے یتیم ہو جائیں گے، کتنے ہی لوگوں کی قیمتی جانیں چلی جائیں گی، کتنے ہی لوگ بے گھر ہو جائیں گے، کتنے ہی لوگ معذور اور بے روزگار ہو جائیں گے۔ ان سب کی لاشوں اور بے سمت زندگیوں کے ڈھیر پر ہم اپنی طاقت اور جیت کا جشن منائیں گے۔ لعنت ہے ایسی جیت اور ایسی طاقت پر۔
Published: undefined
گیارہ دن تک بموں اور راکٹوں کی خونی ہولی کھیلنے کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے دو دھڑے حماس اور اسلامک جہاد جو اسرائیلی فضائی حملوں کا جواب دے رہے تھے، وہ مصر کی براہ راست اور امریکہ کی بالواسطہ کوششوں کی وجہ سے جنگ بندی پر رضامند ہو گئے۔ جنگ بندی کی خبر جیسے ہی فلسطین میں پھیلی ویسے ہی غزہ کے لوگوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ لوگوں نے خوشی میں اپنی گاڑیوں کے ہارن بجانے شروع کر دیئے اور جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑے۔ ان کو لگا کہ فلسطین کی جانب سے جوابی حملوں نے اسرائیل کی کمر توڑ دی ہے اور وہ خوف کی حالت میں گھبرا کر اس جنگ بندی کے لئے رضامند ہو گیا ہے۔ کاش یہ سچ ہوتا کہ اسرائیل جیسی فوجی طاقت پرانے راکٹوں کے حملوں سے خوفزدہ ہو جاتا۔
Published: undefined
کیا ہمیں یہ حقیقت نہیں معلوم کہ ایک چھوٹا سا ناجائز ملک ہونے کے باوجود اسرائیل کا دخل دنیا کے ہر ملک کی حکومت میں نظر آ تا ہے۔ تو کیا اس کو یہ علم نہیں رہا ہوگا کہ غزہ میں کون کون سی تنظیمیں ہیں اور ان کے پاس کیسے کیسے ہتھیار ہیں۔ ہمیں شائد اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اسرائیل کو حماس یا اسلامک جہاد نامی تنظیموں کے بارے میں سرسری سا علم رہا ہوگا۔ ویسے تو ہر ملک اور ہر حکومت اپنے مخالفین کی ایک ایک چیز پر نظر رکھتی ہے اور اسرائیل تو اس میں کچھ زیادہ ہی آ گے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی مرضی سے حملہ کئے اور اپنی مرضی سے جنگ بندی کی۔ ہمیں یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ اسرائیل نے اپنے حملوں میں 232 فلسطینی شہید کر دیئے جس میں 65 سے زیادہ معصوم بچے بھی شامل ہیں اور متعدد عمارتوں کو ملبہ کے ڈھیر میں بدل دیا۔
Published: undefined
ایک خاص مدت تک حملے کرنے کے بعد اسرائیل نے اپنے اس آقا یعنی امریکہ کے کہنے پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا جس نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا پورا حق ہے۔ اس آقا نے مصر میں بیٹھے اپنے مہرے مصری صدر عبدالفاتح السیسی کا استمال کیا اور تینوں فریق یعنی اسرائیلی حکومت، حماس اور اسلامک جہاد نامی تنطیموں کو جنگ بندی کے لئے رضامند کیا اور باقائدہ ایک ڈیل کی۔ اس میں غزہ کی تعمیر نو اور شہدا کے تعلق سے ضرور بات ہوئی ہوگی کیونکہ ایسے حالات میں جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو ایسی تمام باتوں پر غور کیا جاتا ہے اور لینے دینے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے فریقین کو رضامند کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
اس جنگ اور جنگ بندی سے جنگ کے تمام فریقین نے اپنے اہداف یعنی اپنے ٹارگیٹ حاصل کر لئے ہیں اور اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کچھ لوگوں کی جانیں گئیں، کچھ بچے یتیم ہوئے، کچھ عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوئیں، کچھ لوگ بے گھر ہوئے اور کچھ لوگوں کی زندگیاں بے سمت ہو گئیں۔ امریکہ اپنی عین خواہش کے مطابق چودھری بنا رہا، اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور دشمن کی طاقت کا پوری طرح جائزہ لے لیا یعنی وہ پرانے راکٹ سے آگے نہیں ہیں۔ اسرائیل نے مستقبل میں سودہ بازی کے لئے حماس کے ساتھ ایک اور تنظیم ’اسلامک جہاد‘ کو تیار کر لیا۔ حماس کی اس میں جیت یہ ہے کہ وہ فلسطینں کی سب سے بڑی طاقت کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
Published: undefined
جنگ بندی سے فلسطینی عوام میں خوشی کے احساس نے گزشتہ گیارہ دنوں کی اذیتوں کو بھلا دیا، وہ بھول گئے کہ کس طرح ان کے ساتھی شہری اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے، وہ بھول گئے کتنے معصوم بچے یتیم ہوئے، کتنی عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہو ئیں اور کتنے لوگ بے گھر ہو گئے۔ جشن منانے کی ضرورت نہیں ہے، یہودیوں کی سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور متحد ہو کر ایک عالمی اقتصادی طاقت بننے کی ضرورت ہے، نہیں تو اسرائیلی حملوں پر ہم روتے رہیں گے، معصوم بچوں کی تصاویر شئیر کر کے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جب حملہ آور اپنی مرضی سے حملہ بند کر دے گا اور آپ بھی جنگ بندی میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے تو سڑکوں پر جشن منا کر اس کو اپنی فتح تصور کرتے رہیں گے۔ اگر صحیح کہوں تو یہ جشن اسرائیل کو خوفزدہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ اپنی جان بچ جانے کا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined