ہندوستان میں انصاف کا ایک مساوی نظام نافذ کر دیا گیا ہے جسے بلڈوزر جسٹس کہا جاتا ہے ۔ یہ نظام انگریزوں کے ذریعہ لائے گئے ’رولٹ ایکٹ ‘ جیسا ہے جس کے بارے میں ہمارے مجاہدین آزادی نے کہا تھا کہ ’نہ وکیل نہ اپیل نہ دلیل ‘ بس سیدھے سزا سنا دی جاتی تھی۔ یہ نظام ابھی صرف بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں نافذ ہوا ہے اور اس کا نشانہ فی الحال مسلمان ہی ہیں، جس کا تازہ ترین شکار مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کے ایک سینئر لیڈر حاجی شہزاد احمد کا عالیشان مکان اور ان کی گاڑیاں ہوئی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ چھتر پور میں گستاخ رسول ؐ کے خلاف ایک احتجاج میں تھانہ کا گھیراؤ کیا گیا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ تھانہ پر پتھراؤ ہوا تھا۔ جس نے پتھراؤ کس نے کیا ہمیشہ کی طرح وہ اس بار بھی نہیں پکڑا گیا، بس چونکہ احتجاج کی قیادت حاجی شہزاد کر رہے تھے اس لئے ان کا ان کا گھر منہدم اور قیمتی کاروں کو چکنا چور کر دیا گیا۔
Published: undefined
اس سے چند دنوں قبل مدھیہ پردیش کے ہی اجین شہر میں اسکول کے دو بچوں میں لڑائی ہوئی ہے جس میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ٹیمپو ڈرائیور کے بچے نے اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچے کو چاقو مار دیا جس کی کچھ دیر بعد موت ہو گئی۔ جس اس کے فوری بعد اس اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچے کے مکان پر بلڈوزر چلوا دیا گیا۔ اس ٹیمپو ڈرائیور نے کس طرح جان توڑ محنت کر کے اپنے بچوں کے لئے ایک چھت تعمیر کی ہوگی سمجھا جا سکتا ہے ۔ اسے اس جرم کی سزا دی گئی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ ایسی لا تعداد مثالیں ہیں جہاں ایسے بلڈوزر انصاف کے ذریعہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کو ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی۔ بھیڑ میں اس طرح گھس کر پتھراؤ کرنے والے کون ہوتے ہیں یہ سبھی جانتے ہیں اسی لئے آج تک کبھی اصل گنہگار نہیں پکڑا جاتا۔ ایودھیا میں معید خان کے بزنس کمپلیکس کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا ان پر ایک نابالغ بچی کی ابرو ریزی کا الزام ہے ۔ بلڈوزر انصاف کا یہ سلسلہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے شروع کیا تھا ، جس کا انہیں سیاسی فائدہ ملا تو بی جے پی کے دوسرے وزرائے اعلی نے بھی یہ روش اختیار کر لی۔
Published: undefined
اس ملک میں ایک سپریم کورٹ ہے اس میں ایک چیف جسٹس اور درجنوں فاضل جج صاحبان ہیں اسی طرح ہر ریاست میں ہائی کورٹ ہیں ان میں بھی ایک چیف جسٹس اور درجنوں جج ہوتے ہیں پھر ہر ضلع میں عدالتیں ہیں جن میں ضلع جج سمیت کئی جج ہوتے ہیں ان سب کے علاوہ سپریم کورٹ سے لے کر ضلع کچہری تک لاکھوں وکلاء ہیں ان سب کا فرض منصبی عوام کو ظالم سے بچا کر انہیں انصاف دینا انکے ان کا انسانی اور آئینی فریضہ ہے۔
مہذب سماج میں یہ ایک آئیڈیل صورت حال ہے لیکن عام طور سے یہ مقصد پورے طور سے تو پورا نہیں ہو پاتا پھر بھی کافی حد تک عدالتوں نے انصاف کے تقاضے پورے کئے ہیں اور اپنا فرض منصبی اور آئینی ذ مہ داری پوری کی ہے۔ ہندوستان میں عدلیہ اس معاملہ میں کم و بیش نیک نام ہی رہی تھی لیکن گزشتہ دس برسوں میں عدلیہ زیادہ تر معاملات میں سرکار کی حاشیہ بردار ہی بنی رہی ۔حالت یہ ہے کہ جب بھی حکومت کے خلاف کوئی مقدمہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ جاتا ہے زیادہ تر لوگ پہلے ہی اس کے فیصلے کی پیش گوئی کر دیتے ہیں۔
Published: undefined
یہ بلڈوزر انصاف نہ صرف مہذب سماج کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ ملک کے عدالتی نظام کے لئے بھی چیلنج ہے مگر شرمناک صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور زیادہ تر ہائی کورٹ اس معاملہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہر مقدمہ میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہ دیا جاتا ہے یہ موقع ہ بار بار دیا جاتا ہے پھر ترقیاتی اتھارٹیاں کیا عدالتوں سے بھی اوپر ہو گئیں کہ وہ ملزم کو صفائی اور ثبوت پیش کرنے کی مہلت نہیں دیتیں اور اس سے بھی بڑی بات جب کوئی ناجائز تعمیر ہو رہی ہوتی ہے تو اتھارٹی کے افسران کہاں سو رہے ہوتے ہیں ، تب تو رشوت لے کر وہ تعمیر ہونے دیتے ہیں۔ کیا عدالتوں کو ایسے معاملات میں ترقیاتی اتھارٹیوں کے افسروں کی سرزنش نہیں کرنی چاہئے ؟ کیا ان سے ایسی ناجائز تعمیرات کے لئے جواب طلب نہیں کرنا چاہئے لیکن یہ سب وہاں ہوتا ہے جہاں قانون اور انصاف کا راج ہوتا ہے، جب قانون اور انصاف مذہب ذات زبان اور علاقہ کا مرہون منت ہو جائے تو سب دلیلیں پس پشت چلی جاتی ہیں - لیکن ایک بات حکومت اور عدلیہ کو سمجھ لینی چاہئے جب انصاف کے سب دروازے بند ہو جائیں ہر طرف سے مایوسی ہو جائے تو پھر تنگ آمد بجنگ آمد کا دور شروع ہوتا ہے جو بہت ہی خطرناک صورت حل پیدا کر سکتا ہے۔
Published: undefined
ضرورت ہے کہ ایک اور مفاد عامہ کی اپیل دائر کر کے انہدامی کارروائیوں کے لیے کے لیے رہنما اصول وضع کرائے جائیں ، جس میں کوئی بھی انہدام نوٹس دینے کے بعد منا سب وقت دے کر صفائی اور ثبوت طلب کئے جائیں اور ملزم کے قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے نیز ان افسروں سے بھی باز پرس ہو کہ ناجائز تعمیر بروقت کیوں نہیں روکی گئی ۔یہ رولٹ ایکٹ جیسا ظالمانہ طریقہ کسی نہ کسی طرح روکنا ضروری ہے ورنہ کب کس کا گھر کھنڈر بن جائے گا جائے گا نہیں کہا جا سکتا۔ درندوں کو انسانی خون کی عادت لگ جانے پر وہ بہت خطرناک ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined