کہا جاتا ہے کہ جب وقت خراب چل رہا ہو تو اونٹ پر بیٹھے انسان کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی کھسکتی زمین کا اندازہ ہوتے ہی ایسا لگتا ہے کہ اس گودی میڈیا نے بھی آنکھ دکھانا شروع کر دیا جو بی جے پی اور پردھان سیوک کی تعریف و توصیف کو ہی اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا گروپ کے ٹائمز ناؤ اور نوبھارت ٹائمز نے مدھیہ پردیش کا ایک امکانی سروے پیش کیا ہے جس میں کانگریس کو بی جے پی سے زیادہ سیٹیں دی ہیں۔ گوکہ اسی کے ساتھ راجستھان کا بھی سروے پیش کیا گیا جس میں کانگریس کی شکست بتائی گئی ہے، لیکن مدھیہ پردیش میں حق نمک خوری ادا کرتے ہوئے اس نے کانگریس و بی جے پی کے درمیان کانٹے کی ٹکر بتائی ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق پر نظر رکھنے والے نہ صرف اس سے انکار کرتے ہیں بلکہ بی جے پی کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب بتا رہے ہیں جو سروے میں بتائی گئی ہے۔
Published: undefined
سوشل میڈیا پر اس سروے کو بی جے پی کے حق میں ماحول سازی کی ایک کوشش بتائی جا رہی ہے، کیونکہ سروے کا نتیجہ اس بات کی وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ یہ صورت حال 20 ستمبرتک کا ہے، بی جے پی نے اپنی پالیسی 27 ستمبر کے بعد تبدیل کی ہے جس کے بعد حالت بی جے پی کے حق میں موافق ہوئے ہیں۔ یعنی بی جے پی نے اپنی دوسری فہرست میں جس طرح مرکزی وزیر و ممبرانِ پارلیمنٹ کو اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے اتارا ہے اس نے بی جے پی کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ جبکہ یہ بات اپوزیشن ہی نہیں بلکہ ایم پی کی عوام بھی اچھی طرح سمجھ رہی ہے کہ یہ بی جے پی کی کمزوری کی ایک بڑی علامت ہے جس نے اس کو بری طرح خوفزدہ کر دیا ہے۔ اسی خوفزدگی کی وجہ سے اس نے مرکزی لیڈروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ گویا سروے میں بی جے پی کی ہزیمت کو پیش کرتے ہوئے بی جے پی کے لوگوں کو اس بات کی تسلی بھی دی گئی ہے کہ 27 ستمبر کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے جو بی جے پی کو کامیاب کر سکتی ہے۔
Published: undefined
یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ انتخابی سروے کرنے والے ادارے یا ایجنسیوں کا بھی ایک رجحان ہوا کرتا ہے، جس کا اثر سروے کے نتیجے پر بھی پڑتا ہے۔ سروے میں عوام کا جو رجحان سامنے آتا ہے اس کا موازنہ وہ اپنے رجحان سے کرتے ہیں۔ اگر وہ ان کے موافق ہوتا ہے تو پھر تو وہ عوامی طور پر پیش کر دیتے ہیں، لیکن اگر وہ خلاف ہوتا ہے تو پھر دستیاب اعداد و شمار کا وہ اپنے رجحان کے مطابق تجزیہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر سروے کرنے والا کوئی ادارہ ’اے‘ کے حق میں ماحول سازی کرنا چاہتا ہے اور نتائج اس کے خلاف آ جائیں تو وہ ’اے‘ کے حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے اسے سخت مقابلے کی پوزیشن میں دکھائے گا۔ یہی کچھ ٹائمز ناؤ اور نوبھارت ٹائمز کے اس سروے میں نظر آ رہا ہے کہ بی جے پی کو کم سیٹوں کے ساتھ بھی مقابلے میں دکھایا جا رہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ سروے میں بی جے پی کی جو پوزیشن دکھائی گئی ہے، حقیقی صورت حال اس سے بہت مختلف ہے۔
Published: undefined
سروے میں مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو کم سے کم 102 اور زیادہ سے زیادہ 110 سیٹیں، کانگریس کو کم سے کم 118 اور زیادہ سے زیادہ 128 سیٹیں جبکہ دیگر کو 02 سیٹیں دی گئی ہیں۔ یعنی بی جے پی کو اگر زیادہ سے زیادہ سیٹ ملتی ہے اور کانگریس کو کم سے کم ملتی ہے تو بھی بی جے پی کو کانگریس سے 8 سیٹیں کم ہی ملیں گی۔ اس لحاظ سے بی جے پی مدھیہ پردیش میں ہار رہی ہے اور کانگریس جیت رہی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اگر ووٹ شیئر کا بھی تجزیہ کیا جائے تو ہار جیت کا یہ تفاوت کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں سروے کرنے والے ادارے کی بددیانتی بھی سامنے آجاتی ہے۔ سروے میں بی جے پی کو 42.8 فیصد ووٹ ملتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ کانگریس کو 43.8 فیصد اور دیگر کو 13.40 فیصد۔ یعنی کانگریس کو بی جے پی سے ایک فیصد زائد ووٹ مل رہا ہے۔ اس ایک فیصد ووٹ شیئر کو 18 سیٹوں میں تبدیل کیا گیا ہے جبکہ کل 230 سیٹوں میں یہ ایک فیصد 25 سے 30 سیٹوں کا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے یہ کہتے ہوئے اس سروے کو سرے سے خارج کر دیا ہے کہ ہم اس سے زائد سیٹیں جیت رہے ہیں۔
Published: undefined
اس سروے میں الگ الگ علاقوں کا سروے بھی شامل ہے جس میں مالوہ و چمبل میں بی جے پی کی بری طرح شکست بتائی گی ہے۔ مالوہ کیلاش وجیہ ورگیہ کا علاقہ ہے جبکہ چمبل جیوترادتیہ سندھیا کا اور ان دونوں علاقوں کو بی جے پی کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ مالوہ کی کل 66 سیٹیوں میں سے بی جے پی کو 20 سے 24 سیٹیں دی گئی ہیں جبکہ کانگریس کو 41 سے 45 سیٹیں۔ ایسا ہی کچھ حال جیوترادتیہ کے چمبل کا بھی ہے جہاں کل 34 سیٹیں ہیں۔ یہاں سے بی جے پی کو 4 سے 8 سیٹں دی گئی ہیں جبکہ کانگریس کو 26 میں سے 30 سیٹیں۔ جبکہ مالوہ و چمبل کے علاقے کے وہ آزاد جرنلسٹ جو حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مالوہ و چمبل دونوں جگہ سے بی جے پی کا سوپڑا صاف ہو رہا ہے۔ یعنی سروے میں جو سیٹیں بی جے پی کو دی گئی ہیں، مقامی جرنلسٹ اس سے بھی انکار کر رہے ہیں۔ ایسے ہی جرنلسٹوں میں سے ایک گوالیار کے راکیش پاٹھک ہیں، جن کا کہنا ہے کہ چمبل و مالوہ دونوں علاقے ملا کر بی جے پی کو 15 سے زائد سیٹیں ملنا مشکل ہے، کیونکہ ان علاقوں میں آپریشن لوٹس کا سائیڈ ایفکٹ دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔
Published: undefined
مدھیہ پردیش کی زمینی سچائی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر ٹائمز ناؤ و نوبھارت ٹائمز کے اس سروے پر غور کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ بی جے پی کی ڈوبتے کشتی کو تنکے کا سہارا دینے کی کوشش ہے۔ لیکن ایسے تنکے کا بھلا کیا فائدہ جو خود ہی ڈوبتی کشتی کا مرہونِ منت ہو۔ لیکن اسی کے ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سروے کے نتائج حتمی نہیں ہوتے۔ اس سروے میں جن لوگوں نے اپنی رائے دی ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے صد فی صد اپنا مافی الضمیر بیان ہی کیا ہو۔ ایسی صورت میں تو اس کے مشکوک ہونے کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے جب سروے کرنے والے ادارے کا رجحان سب پر عیاں ہو۔ اس لیے سروے پر اعتبار کرنے کے بجائے اگر عوام کے اس رویے پر ایک نظر ڈالیں جس کے نتیجے میں پردھان سیوک صاحب اپنے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کی اپیل کرتے ہیں تو صورت حال مزید واضح ہو جائے گی۔ پردھان سیوک کی اپیل اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کا ان سے موہ بھنگ ہو چکا ہے اور بدقسمتی سے مدھیہ پردیش کی کمان پردھان سیوک صاحب کے ہاتھوں میں ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز