لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے ووٹنگ کے تین مراحل ہو چکے ہیں اور اشارے مل رہے ہیں کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس بار اپنی 2019 کی کارکردگی کو نہیں دہرا پائے گی۔ دریں اثنا، کسانوں نے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) - بی جے پی امیدواروں اجے مشرا 'ٹینی'، کرن بھوشن سنگھ اور پرجول ریونا کے خلاف محاذ آرائی کر کے بی جے پی کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اتر پردیش کی کھیری لوک سبھا سیٹ سے مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ ٹینی اور قیصر گنج سے جنسی ہراسانی کے ملزم برج بھوشن سنگھ کے بیٹے کرن کی امیدواری کو 'کسانوں اور خواتین' کی 'توہین' کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کی جانب سے ان کی امیدواری کے خلاف جاری کیے گئے پوسٹر پر بی جے پی کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔
Published: undefined
کسانوں کی تحریک 2020-21 میں فعال کردار ادا والے ایس کے ایم کے پوسٹر میں بی جے پی کو ’بے نقاب کر کے سزا‘ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایس کے ایم کی جانب سے جاری کیے گئے پوسٹر میں ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے سابق صدر اور بی جے پی ایم پی برج بھوشن سنگھ، کرناٹک میں بی جے پی کے اتحادی جنتا دل (سیکولر) کے رہنما پرجول ریونا اور نریندر مودی حکومت میں وزیر 'ٹینی' کی تصویریں ہیں۔ اس کے علاوہ پوسٹر پر لکھا ہے کہ ’’برج بھوشن کے بیٹے، پرجول ریونا اور اجے مشرا ٹینی کو انتخابی میدان میں اتارنے سے خواتین اور کسانوں کا غصہ بڑھ گیا ہے۔‘‘
بی جے پی حکومت اور کسانوں کے درمیان کافی عرصے سے تناؤ چل رہا ہے۔ کسانوں نے بی جے پی حکومت کے تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف دارالحکومت دہلی کی سرحدوں پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک احتجاج کیا تھا۔ تحریک کے دباؤ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کسانوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور تینوں متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لے لیا، جس کے بعد کسانوں نے بھی تحریک ختم کر دی۔ اس معاہدے کے دو اہم نکات فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی ضمانت اور لکھیم پور کیس کے ملزم آشیش مشرا کے والد ٹینی کو مرکزی کابینہ سے برخاست کرنا تھے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ 3 اکتوبر 2021 کو لکھیم پور کھیری کے تکونیا کے قریب تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر کے واپس آنے والے چار کسانوں اور ایک صحافی کو ایک کار نے کچل دیا تھا۔ اس واقعہ کا الزام مودی حکومت کے وزیر ٹینی کے بیٹے آشیش پر ہے۔ کسانوں کا الزام ہے کہ اس واقعہ کی سازش وزیر ٹینی نے خود کی تھی۔ لیکن بی جے پی نے ابھی تک نہ تو ایم ایس پی پر کوئی فیصلہ کیا اور نہ ہی ٹینی کو برطرف کیا گیا۔ بلکہ کسانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے ٹینی کو تیسری بار کھیری لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کا امیدوار بنا گیا گیا ہے۔
تاہم سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت نے تین متنازعہ زرعی قوانین کو اس لئجے واپس لیا کیونکہ اسے ان کی وجہ سے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات 2022 میں بھاری نقصان کا خدشہ تھا۔ لیکن الیکشن جیتنے کے بعد حکومت نے کسانوں کے مطالبات کو پس پشت ڈال دیا۔ ملک کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی کمار بھاویش چندرا کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پرعزم ووٹر اس طرح کے فیصلے پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مودی کسانوں اور خواتین کے خیالات کو نظر انداز کرتے ہوئے مبینہ مجرموں کو ٹکٹ دینے سے نہیں ہچکچاتے۔
Published: undefined
کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی پر اقتدار میں رہنے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کا دباؤ ہے۔ کسانوں کے علاوہ ایس کے ایم نے عام لوگوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ 'سیاست کو مجرمانہ بنانے' کی سختی سے مخالفت کریں۔ ایس کے ایم سنٹرل کوآرڈینیشن کمیٹی کے سینئر رکن آشیش متل کا کہنا ہے کہ ملک میں 10 سال سے برسراقتدار رہنے والی بی جے پی مزید اقتدار میں رہنے کے لیے مجرموں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
کسانوں کی تحریک کو یاد کرتے ہوئے متل کہتے ہیں کہ کسانوں کی تاریخی جدوجہد کے دوران لکھیم پور 'قتل عام' ہوا تھا، جس میں چار کسان اور ایک صحافی مارے گئے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ٹینی کے بیٹے آشیش مشرا اور اس کے گینگ نے اس سانحہ کو انجام دیا تھا اور اس کے 'ماسٹر مائنڈ' خود مرکزی وزیر ٹینی تھے۔ کسان لیڈر متل کا کہنا ہے کہ ٹینی پر اتنے سنگین الزامات کے باوجود بی جے پی نے انہیں دوبارہ انتخابی میدان میں اتارا ہے، اس سے اس کی پالیسی اور ارادہ دونوں واضح ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
کسان برج بھوشن شرن سنگھ کے بیٹے کو ٹکٹ دینے پر بھی ناراض ہیں۔ کسان رہنما متل کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن پر نہ صرف خواتین پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہے بلکہ دہلی کی ایک عدالت نے ان کے خلاف الزامات بھی طے کیے ہیں اور ان کے خلاف کافی ثبوت بھی ملے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں برج بھوشن کے بیٹے کو انتخابات میں کھڑا کرنا سیاسی طور پر 'غیر اخلاقی' اور ملک کی خواتین کی 'توہین' ہے۔
ایس کے ایم لیڈر کے مطابق، ’’یہ فیصلہ نہ صرف مجرمانہ گروہوں کے دباؤ کا سامنا کرنے میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر بی جے پی کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ یہ انتخابی عمل کو کھلے عام مجرمانہ بنانے کی ایک مثال بھی ہے۔‘‘
متل کا کہنا ہے کہ صرف یہی نہیں، بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) نے کرناٹک کے ہاسن سے پرجول ریونا کو اپنا امیدوار بنایا ہے، جس پر سینکڑوں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور عصمت دری کے مجرمانہ الزامات ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بی جے پی کی طرف سے سیاسی اخلاقیات کی اس طرح کی سنگین خلاف ورزی سے پورے ہندوستان میں کسانوں، خواتین اور لوگوں کو غصہ آنا لازمی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس مجرمانہ سیاست اور کسان مخالف پالیسیوں کی وجہ سے، ایس کے ایم نے کسان تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 'دیہی ہندوستان' میں بی جے پی کے خلاف مہم کو تیز کریں تاکہ ملک بھر میں بی جے پی کی مخالفت کی جا سکے۔
Published: undefined
آل انڈیا کسان سبھا (یو پی) کے صدر مکٹ سنگھ سوال کرتے ہیں، ’’وزیراعظم نے کسانوں کے نمائندوں کو 13 ماہ کی طویل تاریخی کسان تحریک کے دوران اٹھائے گئے سلگتے ہوئے مسائل پر بات کرنے کے لیے کیوں نہیں بلایا؟‘‘
کسانوں میں بی جے پی کی کارپوریٹ نواز پالیسیوں کے خلاف بھی غصہ ہے۔ کسان لیڈر پی کرشنا پرساد کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی نے رام کے نام پر اقتدار حاصل کیا اور اسے کارپوریٹ کے حوالے کر دیا۔‘‘ پرساد پوچھتے ہیں کہ یہ کون سا ’رام راجیہ‘ ہے جس میں عام لوگ صرف غریب ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کے تمام وسائل کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے کیے جا رہے ہیں؟
ایسے وقت میں جب بی جے پی یا مودی کی لہر نہیں ہے اور نہ ہی پہلے جیسی مقبولیت ہے، بلکہ بھگوا پارٹی کو ہر سیٹ کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے، کسانوں کی یہ ناراضگی بی جے پی کو مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔ تاہم فی الحال بی جے پی کسانوں کے مطالبات اور ناراضگی کو نظر انداز کر رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز