مودھی کے بھگت اکثر پوچھتے ہیں کہ بتاؤ مودی جی کا وکلپ (متبادل) کون ہے؟ میں کہتا ہوں بھیا، مودی جا کا متبادل تو کوئی گرو گھنٹال... میرا مطلب ہے کہ کوئی دوسرا مودی ہی ہو سکتا ہے۔ یوں تو جو وزیراعظم ہر سال دو کروڑ روزگار پیدا کرنے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے اور 4.5 سال میں سب سے زیادہ بے روزگاری پیدا کر کے اسے چھپانے میں اپنا پورا زور لگا دے اور خیر باد کہہ کر چلا جائے، اس کا متبادل ہی چاہیے، وہ نہیں۔
لیکن جہاں تک مودی جی کا سوال ہے تو ان کے تو متبادل ہی متبادل موجود ہیں۔ جو روزگار دفاتر بند کرا دے، نوٹ بندی کر کے لوگوں کی روزی روٹی چھین لے اس کے متبادل کے بارے میں سوال ہی کیوں کیا جائے؟ جس کی حکومت مئی تک کی مہمان ہو اور جو عبوری بجٹ میں ’15 لاکھ‘ کا جھنجھنا پھر سے تھما کر چلا جائے گا، اس کا متبادل تو کوئی چنی لال بھی ہو سکتا ہے۔
جو اتنا کم ظرف ہو کہ اپنے پرانے سیاسی آقا تک کو اتنا فارغ سمجھتا ہو کہ بیچارہ بوڑھا ہاتھ جوڑ کر احتراماً کھڑا رہے اور وہ پہچاننے سے بھی انکار کر دے اور اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے، اس کے متبادل کی کوئی کمی ہو سکتی ہے بھلا؟
جو اتنا ’بہادر‘ ہو کہ اپنے مخالفین سے زبانی نہیں بلکہ سی بی آئی وغیرہ ایجنسیوں کے ذریعہ، وہ بھی آخری لمحات میں نمٹتا ہو، جسے اپنے مخالفین کا ہر حملہ اب جرم کی شکل میں یاد آ رہا ہو، اس کا متبادل تو اندھرے میں بھی مل سکتا ہے، وہ بھی بغیر چراغ کی روشنی کے۔ ایسے ’عظیم‘ مودی جی کا متبادل جنہیں نظر نہیں آرہا، میں انہیں با ادب سلام (شت شت نمن) کرتا ہوں۔
ویسے مودی جی کو شاید معلوم نہیں کہ ان کی مہربانی سے ان کے کئی کئی متبادل پیدا ہو چکے، جو انہیں اڈوانی بنانے کو تیار ہیں۔ ان میں سب سے ’قابل‘ تو یوگی آدتیہ ناتھ ہیں جو چٹکی بجاتے ہی اتنی تباہی لا سکتے ہیں جتنے لانے میں مودی جی کو پورے پانچ سال لگ گئے۔ بس اس بندے کو ایک موقع کی تلاش ہے۔ امت شاہ جس کام میں چھ مہینے لگا دیتے ہیں اس کے کرنے میں یوگی کچھ منٹ لیں گے اور کامیابی بھی صد فیصد دلا سکتے ہیں۔
جیٹلی صاحب کو بھی ’نااہل‘ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کی ’خصوصیت‘ یہ ہے کہ وہ چکنے چپڑے ہیں اور فرّاٹے سے انگلش بولتے ہیں، جو یہ بیچارے اس جنم میں تو نہیں بول پائیں گے۔ سال بھر میں ملک کا سوا ستیہ ناش کرنے کی ’ناگپور’ کی خواہش کے لئے یہ سب سے بہترین متبادل ہیں۔ یہ اپنی فوری خدمات بیمار ہونے کے باوجود دے سکتے ہیں اور صحت یاب ہوکر بھی دکھا سکتے ہیں۔ یہ ایک بے چین روح کے مالک ہیں اور بیرون ملک بستر پر پڑے پڑے بھی ملک کی بربادی کی نئی نئی ترکیب ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
سبرمنیم سوامی بھی کب سے بے کار بیٹھے ہیں اور ’ملک کی خدمت‘ کرنے کے لئے بے کل ہیں، کیونکہ مودی جی نے انہیں موقع ہی نہیں دیا۔ وہ جیٹلی جی سے تو خیر مقابلہ کر ہی سکتے ہیں، اگر ضرورت پڑے تو آدتیہ ناتھ اور امت شاہ کو بھی سخت ٹکر دے سکتے ہیں۔ مودی جی کے کمپٹیٹر اور بھی ہیں اور متعدد تو بی جے پی میں ہی ہیں۔ لہذا وہ آرام سے اپنی ’فقیری‘ کا جھولا اٹھا کر احمد آباد یا ہمالیہ کی طرف روانہ ہو سکتے ہیں۔
اور یہ مت سمجھیے گا کہ مودی جی کے بس اتنے ہی متبادل ہیں۔ قومی سطح پر ویاپم کیا رافیل کا بھی باپ کروانا ہو تو شیوراج سنگھ چوہان موجود ہیں۔ رمن سنگھ بھی خالی ہو چکے ہیں۔ آدیواسیوں کو برباد کرنے اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی ٹھکانے لگانے کا ان کا بھی ریکارڈ مودی جی سے برا نہیں ہے۔ گھوٹالہ وغیر کرنا تو خیر ان سب کے ہاتھ کا میل ہے، جب کہو، تب کر کے دکھا دیں گے۔ یہاں تک کہ اپوزیشن میں رہ کر بھی گھوٹالہ کر دیں!
Published: undefined
اور اگر ناگپور کا ارادہ اس مرتبہ جونیئروں کو آزمانے کا ہو تو اسمرتی ایرانی بھی بری نہیں ہیں اور نرملا سیتا رمن بھی کم اچھی نہیں ہیں۔ اور ہاں گری راج کا نام تو بھولنے کا میں گناہ کرنے جا رہا تھا، میں بچ گیا۔ مجھے امید ہی نہیں پورا یقین ہے کہ بی جے پی میں تقریر کرنے اور جھوٹ بولنے میں سب سے اہل سمبت پاترا ٹائپ کے بے شمار نوجوان موجود ہیں۔
کسی بھاجپائی یا سجّن کا نام یہان چھوٹ گیا ہو تو وہ مجھے معاف کر دے۔ سشما سوراج، اوما بھارتی وغیرہ بی جے پی کی خواتین برا نہ مانیں۔ وہ یا کوئی اور اگر چاہے تو ستیہ ناش کی اس فہرست میں اپنا نام خود سے درج کرا سکتا ہے۔ انہیں اس کی پوری چھوٹ ہے اور یہ 12 مہینے چلنے والی سیل ٹائپ نقلی نہیں اصلی چھوٹ ہے۔
ویسے اپنے متبادل کے طور پر مودی جی بھی خاص برے نہیں ہیں۔ جھوٹ بولنے کے معاملہ میں ڈونلڈ ٹرمپ فی الحال ’وشو گرو‘ ضرور نظر آرہے ہیں لیکن وہ ہے نہیں۔ ہماری کمی یہ ہے کہ امریکی صحافی وغیرہ ٹرمپ کے جھوٹ کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور اس کے لئے مودی جی کا جھوٹ ماحولیاتی آلودگی کی طرح اتنا فطرتی ہے کہ خیال ہی نہیں آتا کہ اس کا ریکارڈ بھی رکھا جانا چاہیے۔
ریکارڈ رکھتے تو ٹرمپ جی کے برا ماننے کا خطرہ تھا کہ مودی جی سے انہیں کمتر دکھانے کی سازش ہندوستانی کر رہے ہیں۔ اس سے باہمی تعلقات پر برا اثر پڑ سکتا تھا۔ اس خطرے سے ہم نے ملک کو بچایا ہے۔ اس کے لئے زور دار تالیاں تو بنتی ہیں۔ بنتی ہیں کہ نہیں، بنتی ہیں؟ بنتی ہیں۔
مودی جی اس لئے بھی اپنا متبادل خود ہیں کہ بندا ہے تو منفرد۔ نوٹ بندی جیسے اپنے سب سے خوف ناک قدم کی تعریف بھی صدر کے منہ میں گھوسیڑ سکتا ہے۔ ہندوستان میں سرجیکل اسٹرائک کا تو جیسے یہ ہیرو بن گیا ہے۔ خدا .. معاف کیجئے گا بھگوان کے اس بندے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کو سبق سکھانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہی فوجیوں اور عام شہریوں کی جان گنوا کر خود ہی سبق سیکھ رہے ہیں۔
56 انچ کے اس سینے میں اپنوں کے مرنے کا درد نہیں اٹھتا بلکہ دوسروں کو مارنے کی خوشی میں سینہ پھولا پھولا رہتا ہے۔ نہیں پھولے تو یہ پمپ سے ہوا مارکر اسے پھلا لیتے ہیں۔ ہزارو کروڑ کا گھوٹالہ کروا کر بندے کے چہرے پر ایک شکن تک نظر نہیں آتی اور خود کو چوکیدار کہنے میں یہ ذرا نہیں شرماتے۔ اب بتایئے لوگ ہیں کہ مودی جی کا متبادل باہر تلاش کر رہے ہیں جبکہ اندر ہی بے شمار متبادل موجود ہیں۔ اس لئے میں وہ نعرے بھولے نہیں بھولتا، میرا دیش مہان اور اس سے زیادہ ہمارا مودی مہان، ٹرمپ سے بھی زیادہ مہان۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز