نتیش کمار نے جب بہار میں پہلی بار حکومت تشکیل دی تبھی مشن تھا کہ سرکاری اسکولوں سے بچوں کا ڈراپ آؤٹ روکنا ہے۔ باقی منصوبے اپنی جگہ، لیکن مڈل اسکول تک کے بچوں کا ڈراپ آؤٹ روکنے کے لیے ایک ہی راستہ نظر آیا– مڈ ڈے میل! ’کھانے کے بہانے بچے آئیں گے، کچھ تو پڑھ جائیں گے‘ ایک طرح سے یہی فارمولہ طے کیا گیا۔ ڈیڑھ دہائی سے زیادہ وقت سے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہی ہیں، لیکن اسکولوں میں آج بھی مڈ ڈے میل ایک بڑا ایشو ہے۔ حکومت یہ یقینی نہیں کر پا رہی کہ جو بھی کھانا ملے وہ معیاری ہو۔ آج تک سنٹرلائز کچن کا انتظام نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے اسکول ہوٹل کی شکل میں چلتے ہیں۔ اس میں بچوں کو سلیٹ پنسل کے ساتھ برتن سمیت بستہ لے کر آنا ہے۔ بچوں کے کھانےمیں لوٹ کھسوٹ ایسی کہ حاضری کو آدھار سے جوڑنے کی مخالفت کی گئی کیونکہ سارا کھیل تو حاضری کا ہے۔
Published: undefined
ویسے تو بہار میں ہر مہینے کہیں نہ کہیں سے مڈ ڈے میل میں خامی کی دو چار خبریں آ ہی جاتی ہیں، لیکن اگست کے شروع میں مونگیر کے ایک اسکول کے بچے جب ایس ڈی او کے پاس کھانا دکھانے پہنچے تو تصویر اور ویڈیو کو وائرل ہونے سے کوئی نہیں روک سکا۔ فوراً اسکول پرنسپل سے وجہ بتاؤ نوٹس مانگا گیا اور جانچ رپورٹ آنے کے پہلے تنخواہ نہ جاری کرنے کا حکم بھی صادر ہو گیا۔ لیکن اس سے مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ وہ بھی اس حال میں جہاں کبھی مڈ ڈے میل میں کیڑا، تو کبھی چھپکلی ملنے کی شکایت آتی ہے۔ شکایتوں میں سب سے زیادہ چھپکلی ملنے کی بات سنائی دیتی ہے۔ ویسے بہار میں مڈ ڈے میل منصوبہ کے ڈائریکٹر ستیش چندر جھا بھی مانتے ہیں کہ اس کی کئی شکایتیں اسکول ایجوکیشن کمیٹی کے اراکین کے درمیان تفریق کی وجہ سے بھی آتی ہیں۔
Published: undefined
ویسے انڈا نہیں ملنے یا نصف ملنے یا موسمی پھل کی شکل میں ہمیشہ کیلا ملنے یا سیب نہیں ملنے کی شکایت کبھی کوئی نہیں کرتا۔ کئی بار اُبلا ہوا انڈا نصف یعنی آدھا بھی ملتا ہے۔ مجبوری بھی ہے کیونکہ آج 5 روپے میں اُبلا انڈا کھلائیں تو کیسے جب کہ بازار میں یہ 7 روپے کا ہو گیا ہے۔ ہول سیل میں خرید کر لانے کے لیے تھوک منڈی جانے کا خرچ کون اٹھائے! زمینی حقیقت یہ ہے کہ ساون کے نام پر فی الحال بیشتر اسکولوں نے انڈا کھلانا بند کر رکھا ہے، اس کی جگہ کیلے کھلائے جا رہے ہیں۔ حالانکہ پھلوں میں کیلے ہی واحد متبادل کیونکہ پورا ایک سیب تو کیا، دیگر کوئی پھل بھی اتنے پیسے میں دیے نہیں جا سکتے۔ مڈ ڈے میل کے بہار ڈائریکٹر سیتش چندر جھا مونگیر کے تازہ معاملے کی روشنی میں کہتے ہیں ’’بچوں نے ہمت دکھائی اور شکایت لے کر پہنچے، یہ اچھی بات ہے۔ لیکن اگر یہ ہیڈ ماسٹر کی سطح کی غلطی ہے تو اسکول کمیٹی میں شامل وارڈ نمائندہ اور سرپرست نمائندہ کو پہلے کیوں نہیں پتہ چلا؟ بچے تو سبھی کی ذمہ داری ہیں۔ ریاست کے 70 ہزار اسکولوں میں سے 65 ہزار اسکولوں میں روز مانیٹرنگ کرنے کے لیے تو ڈائریکٹوریٹ سے ہمیشہ تو کوئی نہیں جا سکتا۔ اس لیے کمیٹی کے لوگوں کو بیدار ہونا پڑے گا۔‘‘
Published: undefined
دراصل ڈائریکٹر کی اس میں مجبوری بھی جھلکتی ہے۔ جب اساتذہ کی کمی سے پریشان اسکول میں ایک-دو ٹیچر اس کام میں لگے ہوں اور ایک رسوئیے سے کام چلایا جا رہا ہو تو پریشانی لازمی ہے۔ بہار میں کئی بڑے اداروں نے مڈ ڈے میل مہیا کرانے کی پیش قدمی کی لیکن یہ فارمولہ چل نہیں سکا۔ کچھ ہی این جی او یہ کام کر رہے ہیں، باقی اسکولوں کے بھروسے ہے۔ اب رسوئیا بیمار پڑا یا ریموٹ ایریا میں چاول نہیں پہنچا تو مینو کے حساب سے کیا ملتا ہوگا، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined