فکر و خیالات

بہار: مودی-شاہ کی غلطی کا خمیازہ اٹھانے جا رہی بی جے پی!

نتیش کمار کے ساتھ بی جے پی قیادت کے خفیہ تعلقات سے ناراض کارکن جے ڈی یو کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں

نتیش کمار اور نریندر مودی کی فائل تصویر
نتیش کمار اور نریندر مودی کی فائل تصویر 

بہار کے لئے یوں تو 23 جنوری 2024 کسی دوسرے دن کی طرح ہی تھا لیکن اگر اس لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو یہاں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ دن کوئی عام دن نہیں رہے گا۔ یہ ایک اہم موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

فی الحال، ریاست کی 40 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف 10 پر ووٹنگ ہوئی ہے اور اس نقطہ نظر سے الیکشن ابھی کھلا ہے اور یہ نتائج کے بارے میں قیاس آرائی کا کوئی وقت نہیں ہے۔ لیکن جس طرح ہوا میں اڑتے تنکے بتاتے ہیں کہ ہوا کس طرف چل رہی ہے، اسی طرح انتخابی ماحول کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

Published: undefined

23 جنوری کو، وزیر اعظم نریندر مودی نے کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کا اعلان کیا، جنہوں نے بہار کے وزیر اعلیٰ (1977-79) کی حیثیت سے پہلی بار ریاست میں پسماندہ ذاتوں کے لیے ریزرویشن کی ذیلی زمرہ بندی شروع کی تھی۔ کرپوری ٹھاکر کا تعلق حجام برادری سے تھا، جو ایک انتہائی پسماندہ ذات ہے، اس لیے بی جے پی کے تھنک ٹینک کو شاید یقین تھا کہ انہیں بھارت رتن سے نوازنے سے اس پورے طبقے کی حمایت ایک ساتھ مل جائے گی۔ ریاست میں انتہائی پسماندہ طبقے کی آبادی 36 فیصد ہے۔ بہرکیف، آئیے 23 جنوری کی طرف واپس چلتے ہیں۔ نتیش اس وقت آر جے ڈی-جے ڈی (یو) - کانگریس - لیفٹ اتحاد حکومت کے سربراہ تھے اور اگلے دن 24 جنوری کو بی جے پی، جنتا دل (یو) اور راشٹریہ جنتا دل الگ الگ کرپوری ٹھاکر کی پیدائش کی صد سالہ جشن منانے جا رہے تھے۔

کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کے مودی کے اعلان کا بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے فوری طور پر خیرمقدم کیا، جس سے ان کے 'ردعمل' کے بارے میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔ لیکن بہار میں بی جے پی کے لیڈروں نے ایسے کسی امکان کو مسترد کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا اور 24 جنوری کو بی جے پی کی طرف سے منعقدہ صد سالہ تقریبات میں ریاستی صدر سمراٹ چودھری اور دیگر نے نتیش کی مذمت کی اور انہیں این ڈی اے میں شامل کرنے کے کسی بھی اقدام پر تنقید کی۔

Published: undefined

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ بہار بی جے پی کے تمام سینئر لیڈروں کو دہلی بلایا گیا اور انہیں سختی سے سمجھایا گیا۔ 28 جنوری کو نتیش نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، این ڈی اے میں شامل ہو گئے اور چند گھنٹوں کے اندر وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے کے لئے واپس آ گئے۔ اس بار بی جے پی کے سمراٹ چودھری اور سابق ریاستی اسمبلی اسپیکر وجے کمار سنہا، دو نائب وزرائے اعلیٰ کے طور پر ان کے ہمراہ تھے۔

گلے کی پھانس

26 جولائی 2017 کو نتیش کی گھر واپسی کے برعکس اس بار بی جے پی کارکنوں میں کم جوش تھا۔ ایک احساس تھا کہ 2024 میں، نتیش اب 2005-2013 کے نتیش نہیں رہے، جب وہ بی جے پی کی طاقت تھے۔ غور کریں، یہ قومی سطح پر بی جے پی کے لیے بدترین مرحلہ تھا اور نتیش ایک ترقی پسند آدمی اور ممکنہ وزیر اعظم تھے۔ ایک موثر منتظم کے طور پر ان کی تعریف کی جا رہی تھی اور بہار کو دوبارہ پٹری پر لانے کا سہرا باندھا جا رہا تھا۔

Published: undefined

لیکن اس کے بعد سے گنگا میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بی جے پی کے تھنک ٹینکس کو یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ دراصل سیاسی غلطی کر رہے ہیں۔ چند ہی ہفتوں میں انہیں اندازہ ہو گیا کہ نتیش ان کے گلے کی پھانس بن گئے ہیں۔ بہار میں دراصل بی جے پی ہار گئی ہے اور ووٹنگ کے دو مراحل ختم ہونے کے بعد بی جے پی لیڈر اپنی غلطی پر پچھتا رہے ہیں۔ وہ اب سمجھ رہے ہیں کہ اگر نتیش این ڈی اے میں نہ ہوتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔

23 جنوری کے بعد کہانی بدل گئی، توجہ رام مندر سے ہٹ کر بہار کی 'ترقی' پر چلی گئی۔ 22 جنوری کو رام مندر کی تقریب تک سب کچھ بی جے پی کے مطابق چل رہا تھا لیکن پھر سب کچھ گڑبڑ ہو گیا۔

Published: undefined

ٹائیں ٹائیں فش

جنوری کے وسط میں پٹنہ کے ایک انگریزی اخبار کے ایک سینئر صحافی نے پرجوش انداز میں فون کر کے بتایا کہ کیسے اگلے چند مہینوں میں بہار کے ہر کونے سے 55 لاکھ لوگ ایودھیا کی یاترا کے لیے جمع ہونے والے ہیں۔ یہ غیرمعمولی تحریک 6 دسمبر کو بابری مسجد انہدام کی تیاری میں بھی بڑے پیمانے پر کی گئی تھی۔ اس کے لیے سینکڑوں ٹرینیں اور ہزاروں بسیں چلائی جا رہی تھیں۔ بہار میں نتیش کی قیادت میں نئی ​​این ڈی اے حکومت کے قیام کے چند ہی ہفتے بعد، اسی صحافی نے بات چیت کے دوران اعتراف کیا کہ پوری 'ایودھیا مہم' ناکام ہو گئی ہے اور جے ڈی (یو) -بی جے پی کیسے حکومت کو اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔

بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر یہ نہ صرف صفر پر واپسی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر صورتحال ہے۔ ایودھیا جانے والی خصوصی ٹرینوں اور بسوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی رہی اور نئی شروع کی گئی پٹنہ-ایودھیا ایئر سروس کو 25 اپریل کو واپس لینا پڑا کیونکہ 60 سے 70 فیصد سیٹیں خالی چل رہی تھیں۔ جیسے جیسے ریاست میں سست انتخابی مہم چل رہی ہے، بی جے پی کیمپ میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی قیادت نے دھوکہ دیا ہے۔ 10 اگست 2022 کو جب نتیش دوسری بار بی جے پی سے الگ ہوئے تو بی جے پی لیڈروں کو ان کی خواہش کے مطابق نتیش پر حملہ کرنے کا گرین سگنل دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی لیڈر اکثر نتیش کو دھمکی دیتے تھے کہ انہیں جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا، سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔

Published: undefined

لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت نے نتیش کے ساتھ پوشیدہ تعلقات برقرار رکھے۔ اب بہار میں بی جے پی کے عہدیدار اور کارکن خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ نچلی سطح پر بی جے پی میں جوش و خروش کی کمی ہے اور وہ جے ڈی (یو) امیدواروں کی جیت کے لیے کام کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ نتیش پر اب بھروسہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ انتخابات کے بعد ایک بار پھر اپنا رخ بدل سکتے ہیں۔

زیادہ تر حلقوں میں جے ڈی (یو) کیڈر پر مبنی پارٹی نہیں ہے، یہ بی جے پی کے کارکن ہیں جو اپنے امیدواروں کے لیے مہم چلاتے ہیں اور بوتھوں کا انتظام کرتے ہیں۔ جس طرح سشیل مودی جیسے سینئر لیڈروں کو سردخانہ میں ڈالا گیا اور مرکزی وزیر اشونی چوبے کو بکسر سے ہٹایا گیا، اس سے بھی ناراضگی ہے۔ بی جے پی کے کئی پرانے اور قابل اعتماد لیڈران نے خاموشی سے خود کو انتخابی مقابلہ سے علیحدہ کر لیا۔ ان میں سے بیشتر مودی-شاہ کی جوڑی پر زمینی فیڈ بیک اور علاقاتئی لیڈروں کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ بہار ٹائمز ڈاٹ کام کے ایڈیٹر اجے کمار بتاتے ہیں کہ بی جے پی کارکنان کو کارپوریٹ سہولیات حاصل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے، وہ اب کارکنان کی طرح نظر نہیں آتے۔ اس کے علاوہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف اقتدار مخالف زبردست لہر ہے۔

Published: undefined

ڈبل نہیں، ٹرپل انجن

بی جے پی لیڈر مشکل میں ہیں کیونکہ بہار میں ڈبل نہیں ٹرپل انجن والی حکومت ہے! ریاستی انتظامیہ پر نتیش کی ڈھیلی گرفت کا اثر لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑ رہا ہے۔ محکمہ تعلیم میں ہونے والی پیش رفت نے ابہام اور افراتفری کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ ایڈیشنل چیف سکریٹری تعلیم کے کے پاٹھک، جو محکمہ کے سربراہ ہیں، وزیر اعلیٰ اور ریاستی یونیورسٹیوں کے گورنر اور چانسلر دونوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے گورنر کی طرف سے طلب کردہ وائس چانسلروں کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا اور گزشتہ سال جولائی سے زیر تربیت 6 لاکھ اساتذہ کے لیے ہولی، رام نومی، عید اور سرسوتی پوجا سمیت تمام چھٹیاں منسوخ کر دیں۔ اس وقت مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے غصے میں کہا تھا، 'کیا یہ پاکستان ہے جہاں ہندوؤں کو ان کے تہواروں پر چھٹی نہیں ملے گی؟' تب انہوں نے نتیش پر حملہ کیا جو آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد میں تھے۔

جہاں اساتذہ ریاستی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہیں شراب بندی کی سخت پالیسی پر بھی غصہ پایا جاتا ہے جو بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ سیاستدانوں اور پولیس کی سرپرستی میں ایک متوازی شراب مافیا ابھرا ہے جو گھر گھر شراب پہنچا رہا ہے جبکہ ہزاروں چھوٹی ’مچھلیوں‘ کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔

Published: undefined

نتیش کی خراب صحت اور ان کی کمزور یادداشت گپ شپ کا موضوع بن گئی ہیں اور وہ اس بچے کی طرح، جسے سزا مل چکی ہو، ہر موقع پر بی جے پی لیڈروں کو بار بار یقین دلا رہے ہیں کہ اب وہ کہیں نہیں جائیں گے۔

مودی اور امت شاہ کے پاس ووٹروں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے انڈیا اتحاد پر اپنا تمام گولہ بارود ختم کر دیا ہے۔ بی جے پی-ایل جے پی-آر ایل ایس پی اتحاد نے 2014 میں نتیش کے اپوزیشن کیمپ میں ہونے کے باوجود 40 میں سے 31 سیٹیں جیتی تھیں۔ 2019 میں این ڈی اے نے جے ڈی (یو) کے ساتھ اتحاد میں 40 میں سے 39 سیٹیں جیتیں لیکن اس بار اس کامیابی کو دہرانا بہت مشکل لگتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined