فکر و خیالات

ہندو مسلم اتحاد کی عظیم علمبردار: بی بی امت السلام... برسی کے موقع پر

بی بی امت السلام نے تحریک آزادی کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ گاندھی کے نظریات کی پیروکار رہیں اور فسادات روکنے کے لیے کئی علاقوں کا سفر کیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;شاہد صدیقی علیگ</p></div>

تصویر شاہد صدیقی علیگ

 

برطانوی استعمار کے شکنجے سے چھٹکارے کے لیے جہاں مردوں نے بے شمار قربانیاں دیں، وہاں خواتین بھی کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔ انہوں نے اپنی عیش و عشرت، خانگی زندگی کی تمام راحتوں اور پردے کو ترک کر کے کانٹوں بھری راہوں کا انتخاب کیا اور سماجی بندشوں کو توڑ کر دلیری، خود اعتمادی، ثابت قدمی اور فہم و فراست سے ایسی خدمات انجام دیں جو تاریخِ ہند میں آب زر سے لکھنے کے مستحق ہیں۔ ایسی ایک عظیم ہستی بی بی امت السلام ہیں، جو ایک متحرک سماجی کارکن اور موہن داس کرم چند گاندھی کی سچی پیروکار تھیں۔ انہوں نے آخری سانس تک گنگا جمنی تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گاندھیائی نظریات کی پیروی کی۔

Published: undefined

بی بی امت السلام پٹیالہ کے ایک محب وطن زمیندار، کرنل محمد عبدالمجید خان اور امتہ الرحمن کی بیٹی تھیں۔ بی بی امت السلام نے مروجہ دستور کے مطابق گھر پر ہی تیرہ سال کی عمر میں قرآن مجید مع ترجمہ اور چند مذہبی کتابیں پڑھیں۔ وہ نوعمری سے ہی تحریکِ آزادی کی طرف راغب ہو گئی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی عبدالرشید، جو ضلع کانگرس کمیٹی کے صدر تھے، نے 1922ء میں چھ ماہ کی قید کاٹی۔ اسی اثنا میں بی بی امت السلام نے برقعہ پہن کر انبالہ میں گلی گلی کھادی کی تبلیغ اور فروخت شروع کر دی۔ 25 برس کی عمر میں تحریک ستیہ گرہ سے منسلک ہو گئیں۔ اسی دوران اپنے بھائی کی لائبریری میں موجود باپو کی خود نوشت سوانح عمری پڑھ کر اتنا متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی۔

Published: undefined

بی بی امت السلام نے بھائیوں سے کہا کہ "میں سابرمتی آشرم جانا چاہتی ہوں" تو انہوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بعد ازاں آشرم کو خط لکھا اور بطور مہمان سابرمتی آشرم آنے کی اجازت ملی، مگر وہاں جا کر وہ اس کا ایک اہم حصہ بن گئیں۔ جہاں انہوں نے زندگی کے نصب العین کے لیے کافی غور و خوض کے بعد ’ہندو مسلم اتحاد‘ کا انتخاب کیا۔ اس فیصلے کی بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی تائید کی۔ بی بی امت السلام جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات کی خبریں سنتیں، فی الفور وہاں امن و امان قائم کرنے کے لیے پہنچ جاتیں۔

Published: undefined

انہوں نے 1940ء میں سندھ میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ جھگڑوں کو روکنے کے لیے رخت سفر باندھا، جس کے ضمن میں گاندھی جی نے آنند ٹی ہنگورانی کو 6 نومبر کو یوں خط لکھا کہ ”امت السلام بہن سندھ میں ہونے والے قتل و غارت گری کے سدباب کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سندھ جا رہی ہیں اور وہاں چند مسلم دوستوں سے ملاقات کریں گی۔ نیز حاجی سر عبداللہ ہارون سے اپنے کام میں معاونت کرنے کی التجا کریں گی۔ تمہیں اس کی ہر ممکن اعانت کرنی ہے۔“

Published: undefined

بی بی امت السلام گھوڑے پر سوار ہو کر گھنے جنگلات سے گزرتے ہوئے فساد زدہ علاقوں میں پہنچیں اور فسادات روکنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جب تقسیم ہند کے دوران ملک بھیانک فرقہ وارانہ تشدد کے سیلاب کی زد میں آیا تو امت السلام نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے انتھک کام کیا۔ انہوں نے متعدد مواقع پر کلکتہ، دہلی اور دکن کے حساس علاقوں میں جا کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہاں تک کہ وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ نواکھلی گئیں اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے 25 دن روزے رکھے۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے راجپورہ، پنجاب میں ایک آشرم، کستوربا سیوا مندر قائم کیا اور اپنی تمام جائیداد اس کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے راجپورہ سے ایک اردو اخبار ’ہندوستان‘ بھی شائع کیا۔

Published: undefined

مہاتما گاندھی نے امت السلام کا خیال اپنی بیٹی کی طرح رکھا۔ ان کے تئیں باپو کی شفقت کا اظہار یکم مئی 1937ء کو لکھے گئے مکتوب سے ہوتا ہے، جس میں باپو نے انہیں ’بی بی جان پیاری بیٹی امت السلام‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔

اپنی صحت سے بے پروا، محب وطن امت السلام ملک و قوم کی بے لوث خدمات کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکی تھیں، لہٰذا مسلسل جہدوجہد کے بعد 29 اکتوبر 1985ء کو ابدی نیند سو گئیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ بیشتر ہندوستانی بی بی امت السلام کی بے لوث جانفشانیوں کے بارے میں تو کیا، ان کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined