اگست 1942 میں یوسف مہر علی کی عمر 40 بھی نہیں تھی، جب انہوں نے ’کوئٹ انڈیا‘ نامی کتاب لکھی اور اسے باقاعدہ تقسیم کرایا۔ اس وقت تک آزادی کی وکالت کرنے کے لئے وہ کئی مرتبہ جیل جا چکے تھے۔ وہ بمبئی کے سب سے کم عمر کے میئر تھے اور اپنی انتظامی صلاحیت اور عوامی مفاد کے فیصلوں کے سبب کافی مشہور ہو گئے تھے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے خود یوسف کو میئر انتخاب کے لئے امیدور بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
Published: undefined
جولائی کو وردھا میں کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں 4 قراردادیں منظور کی گئیں:
1. ہندوستان پر برطانوی راج کا فوری طور پر خاتمہ ہو
2. تمام طرح کی قسطایت اور سامراجیت سے خود کو بچانے کے لئے ہندوستان کے عزم کا اعلان
3. انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان میں عرضی حکومت کا قیام
4. برطانوی راج کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک
چوتھی قرارداد کے تحت تحریک چھیڑنے کے لئے ایک ایسے نام کا تعین کرنا تھا جو عہد کی روح کے مطابق ہو۔ ممکنہ ناموں پر غور و فکر کے بعد اس کا نام ’کوئٹ انڈیا‘ رکھنے کا مشورہ یوسف مہر علی نے دیا تھا اور گاندھی جی نے اس کی تائید کی تھی۔
Published: undefined
یہ تحریک 8 اگست 1942 کو شروع کی گئی، جسے انگریزی حکومت نے بے رحمی سے دبا دیا۔ تقریباً ایک لاکھ لوگ گرفتار کئے گئے، ان پر لاٹھی چارج کیا گیا، بھاری بھرکم جرمانہ لگایا گیا اور کانگریس کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ مہاتما گاندھی کے ’کرو یا مرو‘ والی تقریر کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر کانگریس کی تقریباً پوری قیادت کو بغیر کسی مقدمہ کے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ تاریخ ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ‘کوئٹ انڈیا‘ کا نعرے ملک کے کونے کونے میں کروڑوں لوگوں کی زبان پر چڑھ گیا اور لوگوں نے اس کا اپنی اپنی زبانوں میں ترجہ میں۔ مراتھی میں یہ ‘چالے جاؤ‘ بنا اور ہندی میں اسے ’بھارت چھوڑو‘ کہا گیا۔ زبان کوئی بھی ہو مگر جذبہ صرف ایک تھا کہ ’بس، اب بہت ہو چکا!‘
Published: undefined
’بھارت چھوڑو‘ اور ’بھارت جوڑو‘ میں صرف صوتی تک بندی کی ہی مماثلت نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد وجوہات موجود ہیں جو ’بھارت جوڑو‘ کو ’بھارت چھوڑ‘ کا دوسرا مرحلہ بناتی ہیں۔ جیسے جیسے یہ تحریک آگے بڑھے گی اس کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جائے گا۔ لوگ اس سے اسی طرح کا جڑاؤ محسوس کریں گے جیسا ’بھارت چھوڑو‘ سے کرتے تھے۔ اگر آگے بھی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو تو حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں انگریزی میں اسے ‘کنیکٹ انڈیا‘، کنڑا میں ’سمپرکیسلو بھارت‘ تمل میں ’انّاکا ناکو‘ اور گجرات میں اسے ’دیش جوڑیشو‘ کہا جانے لگے۔ یہ تحریک ایک مرتبہ پھر بے بسی اور گھٹن میں زندگی گزار رہے کروڑوں لوگوں کی آواز بننے جا رہی ہے۔ اس تحریک کا مقصد لوگوں کو یہ یاددہانی کرانا ہے کہ ہندوستان کی تعمیر ایک ایسے آئین کی بنیاد پر ہوئی ہے جو اسے ریاستوں کی یونین بناتا ہے۔ مختلف مذاہب کی پیروی کرنے، مختلف رسم و رواج پر عمل کرنے اور مختلف زبانی شناخت والے لوگ اس لئے ایک ساتھ رہ سکے کیونکہ ہم نے کثرت کا احترام کیا اور ہم اس لئے ’ایک‘ ہیں کیوں ہم ’انیک‘ ہیں۔
Published: undefined
آسان الفاظ میں ’بھارت جوڑو‘ کا مقصد لوگوں کو آئین سے منسلک کرنا ہے۔ تقسیم کاری کی لگاتار بمباری کی وجہ سے یہاں کے لوگوں اور ہندوستان کے تصور میں جو دراڑ پیدا ہو گئی ہے اس سے ختم کرنا اس تحریک کا اصل مقصد ہے۔
’بھارت چھوڑو‘ کی طرح ہی ’بھارت جوڑو‘ تحریک بھی ہندوستانیوں سے وابستہ ہے، خواہ وہ کسی بھی صنف، عمر، ذات، مذہب اور معاشی حالات سے تعلق رکھتے ہون۔ یہ تحریک اس طرح کے ہندوستان کو حاصل کرنے کی ہے جس طرح کا وہ تھا۔ یہاں کے لوگ ہندوستان کو ایک ایسے جمہوری، ریاستوں کی یونین اور مہذب ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد باہمی احترام پر ٹکی ہو۔ بھارت جوڑو یاترا اسی صورت کو حاصل کرنے کے لئے ہے۔
Published: undefined
اگر 14 جولائی 1942 کو ‘بھارت جوڑو‘ تحریک کا پس منظر تیار کرنے والے مسودہ کو موجودہ حالات کے مطابق تیار کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح کا ہوگا:
1. فرقہ پرستی پر مبنی تقسیم کاری کی سیاست کا فوری خاتمہ ہو
2. 21 ویں صدی کے ہندوستان میں تمام طرح کی قسطایت اور سرمایہ دارانہ نظام سے حفاظت کا عزم
3. فرقہ پرستوں کی ہار کے بعد ایک ایسی حکومت قائم کرنا جو قانون کی حکمرانی اور آئین کی افادیت کو از سر نو قائم کرے
4. کثرتیت، وفاقیت اور جمہوریت کے لئے عوامی تحریک کی شرعات۔
Published: undefined
اگر یہ ’بھارت جوڑو‘ یاترا کو تقویت دینے والے عزائم ہیں تو یہ یاترا حال کے عشروں میں کی گئی تمام یاتراؤں سے مختلف ہوگی۔ اتنا طے ہے کہ یہ یاترا اس ’رتھ یاترا‘ کے اثر کا تریاق ثابت ہوگی جس نے ایک لامتناہی فرقہ وارانہ کشیدگی اور اکثریت پر مبنی قوم پرستی کی راہ ہموار کی تھی۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ نے ابھی سے کس طرح کی امیدیں جگا دی دی ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 22 اگست کو دہلی میں ہونے والی سول سوسائٹی کی کانفرنس سے اس یاترا کو حمایت دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ دراصل، کانفرنس کا موضوع جمہوریت تھا۔ غور و فکر کے عمل میں شامل راہل گاندھی اور دگوجے سنگھ سے مشکل سوال کئے گئے، جن کا انہوں نے بڑی بےباکی سے جواب دیا۔ سول سوسائٹی کے بیشتر ارکان ایسے نظریاتی پس منظر سے آتے ہیں، جو کانگریس کے نظریہ سے میل نہیں کھاتے۔ پھر بھی ’بھارت جوڑو‘ کے خیال کی طاقت ایسی ہے کہ انہیں لگا کہ وہ لمحہ آ گیا ہے جب ہندوستان کے لوگوں کو نفرت، قسطایت اور تقسیم کاری قوتوں کے خلاف متحد ہو کر جنگ لڑنے کے لئے سیاسی جماعتوں سے ہاتھ ملانے کی ضرورت ہے اور اس لئے وہ آگے آئے۔
Published: undefined
مشترکہ بیان میں سول سوسائٹی نے کہا ’’ہم برسر اقتدار جماعت کی طرف سے سرکاری ایجنسیوں کے غلط استعمال اور اختلافات اور سچ کی آواز کو دبائے جانے سے مایوس و پریشان ہیں۔ ہم برسر اقتدار جماعت اور اس سے وابستہ حاشیہ کے گروپوں کی طرف سے سماج میں نفرت، تشدد اور تقسیم کاری کو لگاتار فروغ دئے جانے کے معاملہ میں بھی یکساں طور پر فکر مند ہیں۔ آج کی حکومت عام لوگوں کی بھلائی کے حوالہ سے لاتعلق ہے۔ کورونا کی وبا جیسے بحران سے نمٹنے میں اس کی ناکامی، نوٹ بندی جیسے بحران کو دعوت دینے کی اس کی عادت، بڑھتی بے روزگاری کے تئیں بے راہروی اور ملک کی دولت اور قدرتی وسائل کی لوٹ سے اپنے قریبی صنعت کار گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی اس کی عادت تشویش ناک ہے۔ ہم پوری مضبوطی کے ساتھ یہ صاف کرنا چاہتے ہیں کہ اس تاریخی موڑ پر ہم یہ سب کچھ نہیں چلنے دیں گے۔ جن کو بھی ہندوستان کی کثرت، مشکل سے حاصل ہونے والی آزادی، اس کے آئین اور ہماری آنے والی نسلون کے مستقبل کی پروا ہے، انہیں ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اور جمہوریت کو پھر سے حاصل کرنے کا عہد کرنا چاہئے۔‘‘
Published: undefined
بھارت جوڑو یاترا کی ایک ہی علامت ہوگی - قومی پرچم اور اس میں کسی بھی پارٹی یا دھڑے کا بینر نہیں ہوگا۔ یہ کسی پارٹی یا سیاسی گٹھ جوڑ کو فروغ نہیں دے گی۔ یہ لوگوں کو سننے، مستقبل کے لئے ان کے خوابوں کو سمجھنے اور ہندوستان کی آزادی سے وابستہ ان کی یادوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ساتھ ہی لوگوں کو یہ یقین دلائے گی کہ وہ اگر عہد کر لیں تو اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں۔ یہ یاترا لوگوں کے دلوں سے خوف کو نکالنے کے لئے اور انہیں یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ وہ چاہے کوئی بھی ہوں اور کہیں سے بھی آئے ہوں، ہندوستان ان کا ہے۔ بھارت جوڑو تحریک ان لوگوں کو خراج تحسین ہوگی جنہوں نے ہندوستان کو روادار بنانے میں تعاون کیا، جنہوں نے آزادی کے خواب کو دیکھا اور اسے شرمندہ تعبیر بنانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ جنہوں نے اپنی زندگی اس لئے قربان کر دی تاکہ ہر ہندوستانی آزاد اور عزت کی زندگی گزار سکے۔ چنانچہ ’بھارت جوڑو‘ اس تحریک سے کم نہیں جسے برطانوی راج سے آزادی کے لئے چھیڑا گیا تھا۔
(مضمون نگار جی این دیوی کلچرل ایکٹوسٹ اور بھارت جوڑو تحریک کے ابتدائی اجلاس کے منتظمین میں سے ایک ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined