یہ بات سنہ 2014 کی ہے۔ یومِ آزادی قریب تھا۔ نریندر مودی برسراقتدار ہو چکے تھے۔ کئی لوگوں کے ذہن میں ہندوتوا سیاست اور مودی کے ’گجرات ماڈل‘ کے تعلق سے بہت سارے سوال اور الجھنیں تھیں۔ ہم نے سوچا کیوں نہ ان سوالوں اور الجھنوں کو دور کرنے کے لیے سب سے سینئر صحافی کلدیپ نیر سے بات کی جائے۔ وہ اس وقت زندہ تھے۔ ان سے بہتر اس وقت کی الجھنوں کو دور کرنے والا کون ہو سکتا تھا۔ انھوں نے بنٹوارا اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت کا سیلاب دیکھا ہی نہیں، جھیلا بھی تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر نریندر مودی تک سارے وزرائے اعظم کو دیکھا اور ان پر لکھا تھا۔ یہ سوچ کر ہم کلدیپ نیر سے بات کرنے پہنچ گئے۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
بنٹوارے سے لے کر گاندھی جی کے قتل اور جواہر لال و نریندر مودی تک ہر ایشو پر کھل کر بات چیت ہوئی۔ میں نے بعد میں کلدیپ نیر سے ایک ذاتی سوال پوچھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ بہت مایوس نظر آ رہے ہیں۔ وہ کچھ لمحات کے لیے گم سے ہو گئے۔ میں نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ وہ چونک گئے، پھر بولے ’تم لوگ ابھی سمجھ نہیں رہے ہو‘۔ میں نے کہا کہ ایسی کون سی بات ہے جو آپ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں، اور ہم نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ وہ بولے ’بھائی، بنٹوارے نے جو نفرت کا سیلاب پھیلایا تھا اس کو اس وقت روکنے والے گاندھی اور نہرو تھے۔ انھوں نے لوگوں کے دلوں کو جوڑ کر ملک بچا لیا تھا۔ لیکن مجھے آج ایسا کوئی نہیں دکھائی پڑتا ہے جو دلوں کو جوڑے اور نفرت کی آگ بجھا سکے۔‘
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
کلدیپ نیر کی دور اندیشی سچ ثابت ہوئی۔ 2014 کے بعد 2022 آتے آتے ملک نفرت کی آگ میں جھلس چکا ہے اور اس آگ کو بجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ اس نفرت کے اندھیرے میں امید کی ایک شمع روشن ہوئی ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی نے 7 اگست کو کنیاکماری سے جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ شروع کی ہے، وہ ملک سے نفرت مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ راہل گاندھی کوئی جواہر لال یا مہاتما گاندھی نہیں ہیں، لیکن اپنی اس کوشش سے وہ گاندھی اور نہرو کے راستے پر چلنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
آج یہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ مشن 1947 کے وقت سے بھی مشکل لگتا ہے۔ اب تو ملک کا گاؤں-گاؤں تقسیم ہو چکا ہے۔ نفرت کی آندھی نے عوام کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ نہ مہنگائی کا خیال، نہ بے روزگاری کی فکر۔ لوگ سب کچھ بھول ہر انتخاب میں نفرت کے تاجروں کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں کانگریس پارٹی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ ایک خوش آئند پیش قدمی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک بن جانی چاہیے جو صرف کانگریس پارٹی ہی نہیں، پورے ملک کی تحریک ہو جائے۔ ہندوستان اس وقت اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے ’بھارت جوڑو یاترا‘ ہر ہندوستانی کا نعرہ ہونا چاہیے۔ اس تحریک کو کسی پارٹی کے نظریہ سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ وقت کی آواز ہے۔ گاؤں-گاؤں، نگر-نگر، سماجی کارکنان، ان کی تنظیمیں، ہندوستانی آئین میں یقین رکھنے والی ہر سیاسی پارٹی اور ہر شخص کو مل کر ’بھارت جوڑو‘ مہم کو ایک ملک گیر تحریک بنا دینی چاہیے۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
اس تحریک سے ہی اپوزیشن اتحاد کا مشن بھی پورا ہو سکتا ہے۔ ’بھارت جوڑو‘ ہی واحد راستہ بچا ہے جس کے ذریعہ ہندوستانیوں کے دل میں بسی نفرت کی آگ بجھائی جا سکتی ہے۔ اس لیے کانگریس پارٹی کو اس مہم کو صرف پارٹی کی مہم نہیں رکھنی چاہیے۔ اس مہم کو ویسے ہی چلانا چاہیے جیسے گاندھی جی اپنی مہم سارے ہندوستانیوں کے لیے چلاتے تھے۔ ہر ریاست میں وہاں کی علاقائی پارٹی کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ہر ذات، ہر سماج، ہر مذہب، کسان، مزدور، دانشور، سماجی کارکن اور ہر طبقہ کی آواز ’بھارت جوڑو‘ ہونی چاہیے۔
مکمل اپوزیشن ابھی تک ویسے سرگرم نہیں دکھائی پڑتا جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے تھا۔ ’بھات جوڑو یاترا‘ ایک ایسی مہم ہے جو ملک جوڑنے اور اپوزیشن کو جوڑنے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے کنیاکماری سے شروع ہوئی اس مہم کو ملک کے گوشے گوشے تک پہنچا کر ’بھارت جوڑو‘ اور ’بھارتیہ سماج جوڑو‘ مشن میں بدل دینا چاہیے۔ تبھی ملک میں پھیلی نفرت کی آگ بجھ سکتی ہے۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
مشہور و معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کو سپریم کورٹ نے عارضی ضمانت دے کر ملک میں عدلیہ کا وقار بڑھا دیا ہے۔ انہی تیستا کے خلاف اسی سپریم کورٹ نے دو ماہ قبل فیصلہ دیا تھا۔ اس سے سپریم کورٹ پر ایک طبقہ نے انگلی اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ تیستا کے ادارہ ’سنٹر فار جسٹس اینڈ پیس‘ نے گجرات میں ہوئے 2002 کے فسادات کے درمیان نرودا پاٹیا علاقے کے فساد متاثرین کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔ نرودا پاٹیا علاقے میں مارے گئے احسا جعنفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی طرف سے یہ معاملہ دوسری بار اٹھایا گیا تھا۔ ایک بار اس معاملے میں فیصلہ آ چکا تھا۔ سنٹر فار جسٹس اینڈ پیس نے اپنے آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس معاملے کو پھر اٹھایا تھا۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
دوسری بار سپریم کورٹ نے نہ صرف تیستا کی عرضی رد کر دی تھی بلکہ اس معاملے میں یہ بھی کہا تھا کہ ایسے لوگ جو گھڑی گھڑی یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ بس اسی بات کو بنیاد بنا کر گجرات حکومت نے تیستا کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن چیف جسٹس یو یو للت کی قیادت والی بنچ نے تیستا کو ضمانت دے کر پہلے والے فیصلے پر اٹھے سوالوں کو کسی حد تک ختم کر دیا ہے۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
اب یہ معاملہ گجرات ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ گجرات ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے ذریعہ دی گئی ضمانت کو رد کر دے۔ تیستا اب جیل سے باہر آ چکی ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر مشہور سماجی کارکن ہیں۔ تیستا کو اب دوبارہ کسی بھی حال میں جیل نہیں جانا چاہیے۔ سنہ 2002 میں ہوئے فسادات کے متاثرین کئی لوگوں کو اب بھی انصاف نہیں ملا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی گزشتہ ماہ یومِ آزادی پر بلقیس بانو کے 11 زانیوں کی سزا معاف کر دی گئی اور وہ اب آزاد گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ گجرات حکومت کے اشارے پر ہی ہوا۔ واضح ہے کہ گجرات حکومت تیستا کو دوبارہ جیل بھیجنے کے لیے زور لگائے گی۔ ابھی سپریم کورٹ میں تیستا کو ضمانت نہ ملنے کے حق میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ اس لیے انصاف میں یقین رکھنے والی سبھی سماجی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو تیستا کی اس لڑائی میں پوری مدد کرنی چاہیے۔ تیستا کی واپسی اب مستقل ہونی چاہیے۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Sep 2022, 11:11 AM IST