فکر و خیالات

بیتے دنوں کی بات : ’گراموفون‘ جب صرف چند امراء کے گھروں کی زینت ہوا کرتا تھا

گراموفون ہر گھر کی زینت نہیں ہوتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب گراموفوں کا راج تھا اس وقت عام لوگوں کے پاس اتنا پیسا نہیں تھا اس لئے یہ صرف امیروں کے گھروں کی زینت ہوا کرتا تھا

<div class="paragraphs"><p>گراموفون / Getty Images</p></div>

گراموفون / Getty Images

 

گراموفون ہر گھر کی زینت نہیں ہوتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب گراموفوں کا راج تھا اس وقت عام لوگوں کے پاس اتنا پیسا نہیں تھا اس لئے یہ صرف امیروں کے گھروں کی زینت ہوا کرتا تھا۔ پیسے والے باذوق لوگ ہی اسے اپنے گھر کی زینت بناتے تھے۔ گھر میں بیٹھ کر موسیقی کا مزہ لینے کے دور کا یہ آغاز تھا اور اس آغاز میں گاموفون واحد ذریعہ تھا۔

Published: undefined

آج کے زمانہ میں انٹرنیٹ نے ہر شخص کے موسیقی کیا پوری دنیا کو قریب لا دیا ہے اور اس میں پیسے کا کوئی دخل باقی نہیں رہا۔ انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے پوری دنیا لوگوں کی مٹھی میں آ گئی ہے۔ لیکن ایک دور تھا جب گھر میں گراموفوں ہونا امارت کی نشانی ہوا کرتی تھی اور خاص لوگ ہی اس سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

Published: undefined

صندوق نما ڈبے کے اوپر ایک کالے رنگ کا توے جیسی گولائی کا ریکارڈ ہوا کرتا تھا جو گراموفون پر گھوما کرتا تھا اور اس گھومتے ہوئے ریکارڈ پر گراموفون سے جڑی ایک سوئی لگانے پر یہ بجنا شروع ہو جاتا تھا۔ اس کالے رنگ کے گول ریکارڈ پر ابھری ہوئی لائنیں ہوا کرتی تھی اور جہاں پر یہ سوئی رکھ دی جاتی تھی وہاں پر جو بھی گانے کا حصہ ہو تا تھا گانا وہیں سے شروع ہو جاتا تھا۔

Published: undefined

اس گراموفون کے اوپر ایک گول سا لاوڈ اسپیکر یا ہارن ہوتا تھا اور اس پر لگے بٹن سے آواز بڑھائی اور کم کی جاتی تھی۔ مزہ جب آتا تھا جب ریکارڈ کے پرانے ہونے کی صورت میں سوئی کبھی کبھی ریکارڈ کی ایک ہی لکیر پر گھومتی رہتی تھی یعنی گانے کی وہی لائن بار بار سنائی دیتی تھی جہاں پر سوئی اٹک جاتی تھی اور اسی لئے یہ محاورہ عام ہے ’ریکارڈ کی سوئی کی طرح ایک ہی چیز پر اٹک جانا۔‘ عام طور پر لوگ اس سوئی کو وہاں سے اٹھاکر آگے رکھ دیا کرتے تھے تو گانا آگے بڑھ جاتا تھا۔

Published: undefined

نئی نسل کو شاید معلوم نہیں کہ گراموفون کے ایجاد کے بعد متعدد کمپنیاں میدان میں آئیں لیکن ہندوستان میں جو کمپنی مشہور ہوئی اس کا نام ام ’ایچ ایم وی‘ یعنی ہِز ماسٹرس وائس تھا جس کا اردو میں ترجمعہ ہوا ’اس کے مالک کی آواز‘۔ اس کمپنی کا یہ نام کیوں رکھا گیا اس کے پیچھے بھی ایک پوری کہانی ہے۔ موسیقی کی دنیا میں ایک نایاب مقام رکھنے والے موسیقار سنگیت رتن عبد الکریم خان تھے اور وہ جب کچھ گاتے تھے تو ان کا ایک کتا بھی سامعین میں آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ جب برطانیہ کی گراموفون کمپنی نے ہندوستان میں اپنا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سوچا تو اس نے ایک لوگو اور کمپنی کے نام پر بھی غور کیا۔ اس وقت گوگل تو ہوتا نہیں تھا کہ نام ڈالوں اور سرچ کر لو۔ کمپنی والوں کو یہ معلوم تھا کہ عبد الکریم خان کی آواز شاندار ہے اور ان کا کتا ان کی آواز کا اسیر ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے لئے کمپنی نے عبدالکریم کے گانے کا ریکارڈ چلا دیا اور جیسے ہی کتے نے اپنے آقا کی آواز سنی ویسے ہی وہ دوڑا دوڑا وہاں آیا اور اس نے ہارن میں اپنا منہ ڈال دیا۔ بس پھر کیا تھا جب سے یہ امر ہو گیا۔ کتے اور گراموفون کو کمپنی کا لوگو اور کمپنی کا نام ایچ ایم وی یعنی ہز ماسٹرس وائس رکھا دیا گیا۔

Published: undefined

اب سائنس نے زبردست ترقی کر لی ہے اور منہ سے نکلی ہوئی ہر ریکویسٹ (وائس کمانڈ) پر فورا نہ صرف گانے کی آواز آنے لگتی ہے بلکہ ویڈیو کی شکل میں اس گانے کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔ سائنس نے خاص لوگوں کی چیزوں کو عام لوگوں کی رسائی میں دے دیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined