آڈیو کیسیٹ کسی زمانے میں امیری اور شوق کی نشانی ہوا کرتی تھی ۔ جب چاہا اپنی مرضی کا گانا سن لیا یا آپس کی کوئی پرانی گفتگو سن لی لیکن موبائل نے ہماری یہ امیری اور شوق دونوں ہی چھین لئے ہیں ۔ اب تو ہر کوئی موبائل پر ہر طرح کی بات چیت اوراپنی مرضی کے نہ صرف گانے سن سکتا ہے بلکہ ویڈیو کے ساتھ اپنی آ واز میں گانا گنگنا بھی سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں مصنوئی ذہانت اور چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے آپ کی آواز بھی بدلی جا سکتی ہے یعنی کوئی نہیں پہچان پائے گا کہ گانا آپ نے گایا ہے یا محمد رفیع نے لیکن ایک دور کیسٹ کا ہوا کرتا تھا اور کیسٹ پلیئر اور کیسیٹ کسی بھی شخص کی امیری یا شوق کی پہچان ہوا کرتی تھی۔
پلاسٹک کی ایک ڈبیا جو عام طور پر انسان کی ہتھیلی کے برابر یا ہوا کرتی تھی اور مستطیل یعنی ریکٹینگیولر شکل میں ہوا کرتی تھی ۔ یہ مستطیل ڈبیا دو حصوں کو ملاکر پیچوں سے کس کر جوڑی جاتی تھی جس کے اندر دو گھومنے والے چھوٹے سے پہئے ہوا کرتے تھے جن کے گھومنے پرایک پہئے سے اتر کر دوسرے پہئے پر ایک پتلا سا ٹیپ چڑھا کرتا تھا اور جب یہ پتلے سے ٹیپ کا حصہ پلیئر یا ریکارڈر کے ہیڈ سے چھوتا تھا تو اس میں اس جگہ پر جو بھی ریکارڈنگ ہوتی تھی وہ بہ آواز بلند سب کو سنائی دیتی تھی۔ اس پتلے سے ٹیپ میں گانا بھی ریکارڈ ہوتا تھا، فلم کی کہانی بھی، قوالی بھی اور لوگوں کی اپنی یادیں بھی ۔
یہ کیسٹ کا ہی کمال تھا کہ لوگ برسوں تک اپنی پسندیدہ غزل ، گانا، قوالی ، فلمی کہانی یا اپنی بات چیت جب چاہے سن لیا کرتے تھے۔ بس شرط یہ تھی کہ سننے والے شخص کے گھر میں بجلی ہو اور کیسٹ ریکارڈر یا پلیئر ہو ۔ سننے کے لئے یعنی پلے کرنے کے لئے اس کیسٹ پلیئر کا ایک بٹن نیچے دبا دیا جاتا تھا اور ریکارڈنگ کے لئے دو بٹن ایک ساتھ نیچے دبادئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ کیسٹ پلیئر میں تین عدد بٹن اور ہوا کرتے تھے جس میں ایک ریکارڈنگ آگے بڑھناے کے لئے ، دوسرا پیچھے ہٹانے کے لئے اور تیسرا پاز یعنی وقفہ کے لئے ۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد ہی وی سی آر کا چلن بھی شروع ہوا جس کے ذریعہ آپ کیسٹ لگانے پر پوری پوری فلم اور ڈرامے دیکھ لیا کرتے تھے یا اپنی شادی کی ریکارڈنگ دیکھ لیا کرتے تھے یعنی سنیما ہال میں بغیر جائے گھر بیٹھے فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔
کیسیٹ بنانے والی سب سے زیادہ مشہور ایک جاپانی کمپنی ہوا کرتی تھی جس کا نام ٹی ڈی کے ہوا کرتا تھا ۔اس کے بعد بہت سی کیسیٹ کمپنیاں وجود میں آئیں اور ان کا سکہ بھی خوب چلا۔ بر صغیر میں بہت کم خاندان کے لوگ باہر جاتے تھے خاص طور سے ہندوستان سے اور جس خاندان سے بھی کوئی چلا جاتا تھا وہ آتے وقت پوچھتا تھا کہ وہ کیا لائے تو سب کی مرضی اور خواہش کیسیٹ پلیئر کی ہوتی تھی جبکہ آنے والا شخص خود ہی یہ لاتا تھا اور وہ جب اس کو خاندان کے لوگوں کے بیچ بیٹھکر چلاتا تھا تو وہ اپنے اوپر ایسا فخر محسوس کرتا تھا جیسے اس نے ہی اسے ی ایجاد کیا ہو ۔ اس کی بھی اس سے خاندان میں عزت بڑھ جاتی تھی۔
یہ سب بیتے دنوں کی بات ہے اب تو آپ بچے بھی اپنی خواہش بس ’الیکسا‘ سے کہتے ہیں اور ان کی خواہش گانے، فلم یا کارٹون کی شکل میں ان سامنے ٹی وی اسکرین یا لیپ ٹاپ اسکرین پر کچھ سیکنڈ میں نظر آنے لگتی ہے۔ اس موبائل اور اس ترقی نے جہاں زندگی میں انقلابی آسانیا پیدا کر دی ہیں وہیں لوگوں کی امارت اور شوق کو دفن بھی کر دیا ہے اور اب ہر کوئی آسانی کے ساتھ اپنی مرضی کا گانا یا فلم چاہے کتنی بار سن سکتا ہے کیونکہ اب ہر چیز آپ کے موبائل میں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز