عاصمہ جہانگیر کی وفات سے بلا شبہ پاکستان کا سیکولر لبرل طبقہ یتیم ہو گیا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی حفاظت کا ایک ستون گر گیا۔ عاصمہ جہانگیر کی پاکستان میں نہ تو کوئی ایک پہچان تھی اور نہ ہی ان کا کوئی ایک روپ تھا۔وہ سیاسی تھیں بھی اور نہیں بھی۔ پاکستان کی سیاست میں ان کا ایک کردار تھا اور نہیں بھی۔ وہ مارشل لا کے خلاف جدو جہدکا ہر ال دستہ بھی رہتیں لیکن پھر جمہوریت کے ثمرات میں ھصہ بھی نہیں مانگتی تھیں۔ وہ سیاست میں فوج کے کردار کے خلاف پاکستان کی سب سے مضبوط آواز تھیں۔ وہ بات جو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ نہیں کہ سکتے تھے عاصمہ جہانگیر بلا خوف کہتی تھیں۔ اسی لئے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ان کو پسند بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ کبھی بھی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی پسندیدہ نہیں رہیں۔
وہ پاکستان میں بھارت سے اچھے تعلقات کی سب سے بڑی حامی تھی۔ وہ بھارت سے دوستی کی حامی تھیں۔ یہ کہان غلط نہ ہو گا کہ عاصمہ جہانگیر کی موت سے بھارت پاکستان دوستی کی ایک بہت مضبوط آواز خاموش ہو گئی۔ وہ بھارت سے دوستی کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار تھیں۔شائد ان کے بعد پاکستان میں بھارت سے دوستی کی اتنی مضبوط کوئی آواز نہیں ہے۔ ان کے بعد ایک خاموشی ہی نظر آرہی ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی موت سے بھارت نے پاکستان میں ایک دوست کھو دیا ہے۔ شائد ان کی موت سے پاکستان سے زیادہ بھارت کا نقصان ہوا ہے۔
عاصمہ جہانگیر ایک طرف انسانی حقوق کی علمبردار تھیں۔ تو دوسری طرف پاکستان میں ایک ماہر قانون دان بھی تھیں۔ وہ سپریم کورٹ بار کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ بار کی سیاست میں عاصمہ جہانگیر کا ایک مضبوط کردار تھا۔ ان کا اپنا ایک گروپ تھا جس کو عاصمہ گروپ کہا جاتا تھا۔ ان کی ٹکٹ کو جیت کی نشانی سمجھا جاتاتھا۔ آج بھی سپریم کورٹ بار کی صدارت عاصمہ گروپ کے پاس ہے۔ لاہور بار کی صدارت عاصمہ گروپ کے پاس ہے۔ ان کی موت سے پاکستان میں وکلا کی بار کی سیاست میں ایک بہت بڑا خلا آگیا ہے۔
وہ جمہوریت کی بہت بڑی حامی تھیں۔ لیکن وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں تھیں۔ شائد ان کی شخصیت پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے بڑی ہو چکی تھی اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں ان کے قد کے سامنے بہت چھوٹی تھیں۔ لیکن پر اہم سیاسی تحریک میں عاصمہ جہانگیر ایک بڑا کردار ہوتا تھا۔ ان کی رائے کی اہمیت تھی۔ ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ وہ کیا کہ رہی ہیں۔
عاصمہ جہانگیر پاکستان میں لبرل خواتین کی پہچان تھیں۔ کھلے عام سگریٹ پینے۔ شراب نوشی کرنے میں وہ کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی سکینڈل نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے مخالفین کو یہ موقع نہین دیا کہ وہ ان کے کردار پر کوئی آواز اٹھا سکیں۔ وہ مشرقی لباس پہنتی تھیں۔ لیکن انہیں مغرب نواز سمجھا جاتا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز