فکر و خیالات

گریٹر اسرائیل میں عرب ممالک بھی شامل!

صیہونی منصوبے کے مطابق گریٹر اسرائیل میں نہ صرف فلسطین، لبنان، اردن بلکہ عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ عرب حکومتوں کو خبردار رہنا چاہئے کیونکہ اسرائیل ان کے علاقوں پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

 
Amir Levy

مسئلہ فلسطین ایک مردہ مسئلے کی شکل کے بجائے اب خطے کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے اور اس کے لئے ہمیں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے منصوبہ سازوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے، جنہوں نے مسئلہ فلسطین کو ایک مرکزی مسئلہ بنا دیا جبکہ 7 اکتوبر سے پہلے فلسطینی کاز کو ایک بھولا بسرا مسئلہ سمجھا جانے لگا تھا۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد کے حالات نے دو دہائیوں تک طاقِ نسیاں میں رہنے کے بعد، مسئلہ فلسطین کو ایک مرکزی مسئلے میں تبدیل کر دیا اور اسے طوفان الاقصیٰ کی سب سے اہم کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ اسے استعماریت کے خلاف مقاومت کی بڑی کامیابی کہا جائے گا جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس کی حفاطت کے لئے گزشتہ 70 برس سے زائد عرصہ سے جاری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

Published: undefined

یہ مقاومت دنیا کی واحد ایسی تحریک ہے جو جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل صہیونی آئرن ڈوم کے مقابلے فلسطینی شہری پتھر اور لکڑی کی چھڑیوں سے کر رہے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ یقیناً فلسطین کے شہری دنیا میں زندہ قوموں کی مثال ہیں جو اپنی زمین کی حفاطت کے لئے کچھ بھی قربان کرنے پر آمادہ ہیں اور حق کی راہ میں اپنے قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں ہیں خواہ انہیں غاصب اسرائیل کی بمباری میں اپنے بچوں کی خون سے لت پت لاشیں ہی کیوں نہ اٹھانا پڑیں۔ یاد رہے کہ اللہ کی امداد ڈھیلا اور مچھر کو ہتھیار بنا دیتی ہے اور لکڑی اور جالے کو آب حیات۔ خدا ایک متکبر بادشاہ کو ایک مچھر کے ذریعے ذلیل کرتا ہے اور ایک اولوالعزم کو باجرے کے دانے سے عزت دیتا ہے۔

Published: undefined

دائرہ وجود میں مچھر اور باجرے کے دانے کو جوڑ لینا خدا کا کام ہے، لیکن اللہ کی نصرت صرف ان لوگوں کے لئے مختص ہے، جو غزہ کی پٹی کو احد کی گھاٹی کی طرح چھوڑ کر نہیں بھاگتے۔ قبلہ اول کی فتح کی شرط صرف دنیاوی قبلے کی طرف پیٹھ پھیرنا ہے۔ خود ساختہ اور درماندہ غاصبوں کو غلط فہمی ہوئی ہے ’نہر سے بحر‘ ( یعنی دریائے اردن سے بحیرہ روم تک) کی یہ سرزمین (فلسطین) اللہ کے مستضعف بندوں کی غیر منقولہ جائیداد ہے، نہ کہ ہانکے ہوئے مستکبروں کی ’ارض موعود‘۔ فتح و نصرت صرف ان لوگوں کی قسمت میں ہے جو نہ ڈریں اور نہ ڈرائیں۔ اس تہذیبی تنازع کا فاتحہ محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) ہے، فتنہ کثیرہ پر فتنہ قلیلہ کی فتح کا راز ’خدائی بننا‘ ہے۔

Published: undefined

فلسطین پر غاصب اسرائیل کے قیام کے بعد سے ہی صیہونیوں نے جہاں اپنے سیاسی و معاشی عزائم کی بنیاد بنائی تھی، وہاں ان کے سامنے مذہبی عنصر بھی موجود تھا، لہذا اس لیے انہوں نے فلسطین سے مسلمانوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینیوں کو بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی نسل کشی کا شکار بنایا گیا۔ آج بھی موجودہ حالات میں جہاں مساجد اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہی ہیں وہاں فلسطین، شام و لبنان میں عیسائی عبادت خانے یعنی چرچ بھی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ صیہونیوں نے اپنے مذہبی جھوٹے اور من گھڑت عقائد سے اپنے صیہونی آباد کاروں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ صیہونی ہی دنیا کی سب سے بہترین قوم ہیں۔

Published: undefined

صیہونیوں کے من گھڑت مذہبی عقائد میں ایک عقیدہ نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدوں کا معاملہ بھی ہے، جس پر ہمیشہ سے ہی صیہونیوں نے زور دیا ہے۔ جس وقت فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا تھا اس وقت بھی صیہونزم کے بانیوں نے اس بات کی تکرار کی تھی کہ فلسطین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود صرف فلسطین تک نہیں ہے بلکہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں گی اور اس کو گریٹر اسرائیل کہا جائے گا۔ اسرائیل کا مقصد صرف فلسطین پر قبضہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس کی غاصب نظریں شام، لبنان، اردن اور عراق کے ساتھ عرب ممالک پر بھی گڑی ہوئی ہیں اور اس ناپاک منصوبے کا نقشہ صہیونیوں کی سرکاری ویب سائٹ پر ہے جس کو ’گریٹر اسرائیل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

Published: undefined

غاصب صیہونیوں کی جانب سے بیان کردہ گریٹر اسرائیل میں 100 فیصد فلسطین، 100 فیصد لبنان، 100 فیصد اردن، 70 فیصد شام کے علاقہ جات، 50 فیصد عراق کے علاقہ جات، 33 فیصد سعودی عرب کے علاقہ جات، 30 فیصد مصر کا علاقہ، 50 فیصد کویت کا علاقہ شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ترکیہ کے بھی اس نقشے میں شامل ہیں۔ ان سب کو ملا کر نیل سے فرات کا خواب دیکھا جا رہا ہے، جسے صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کا نام دیا ہے۔ صہیونیوں کے جبر و ظلم میں اقوام متحدہ بھی برابر شریک ہے کیونکہ امن و امان کے قیام اور انصاف کی رسائی کے لئے قائم کئے گئے اس ادارے کے اعلان (1947) کے مطابق ہی فلسطین ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے ہاتھوں فلسطین کے خلاف ہونے والی خیانت آج 2024 میں یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب صرف غزہ اور مغربی کنارہ باقی ہیں، باقی ماندہ پورے فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے۔ صیہونیوں کا بنیادی مقصد ہے کہ وہ پورے کے پورے فلسطین جیسا کہ’ گریٹر اسرائیل‘ کے لیے ان کو 100 فیصد فلسطین پر تسلط چاہیے، اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں، لیکن فلسطین کی مزاحمت اس ناپاک منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے حماس کو ختم کرنے اور صہیونیوں کا وجود باقی رکھنے کے لئے یہودی دنیا متحد ہو رہی ہے۔ اب گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے لیے اسرائیل چاہتا ہے کہ پہلے مکمل فلسطین پر قبضہ کیا جائے اور پھر باقی ممالک کی طرف پیش قدمی کرے۔

Published: undefined

اس صورتحال میں جب غزہ اور لبنان لہولہان ہیں اور خطے کی حکومتیں ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ان تمام عرب حکومتوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کے طے شدہ نقشے اور منصوبے کے تحت اسرائیل ان عرب حکومتوں سے بھی اپنے معین کردہ اور بیان کردہ علاقوں کو چھین لے گا۔ یہ جنگ در حقیقت ان تمام عرب ریاستوں کے بقاء کی ہے جن کا ذکر ’گریٹر اسرائیل‘ میں ہے۔ یہ جنگ فلسطین کی حمایت میں غاصب صیہونیوں سے نبرد آزما لبنان، ایران یا عراق کی بقاء کی نہیں ہے بلکہ یہ سعودی عرب اور کویت سمیت ترکی اور ہر اس حکومت و قوم کی جنگ ہے جس کو صہیونیوں نے ہڑپنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ عرب حکومتوں کے لئے یہ وقت غاصب کے پنجے مروڑنے کا ہے ورنہ موجودہ صورتحال پر خاموشی کا یہی مطلب نکالا جائے گا کہ صہیونیوں کے ناپاک منصوبے کو عرب حکومتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined