"کسی مقصد کو دھیان میں نہ رکھ کر غیر جانبدار خبریں دینا، سماج کے مفاد میں عوامی پالیسی کا نظریہ پیش کرنا، بغیر کسی خوف کے بڑے سے بڑے اور اونچے سے اونچے شخص کے قصور و غلط کام کا پردہ فاش کرنا اب ہندوستان میں صحافت کی پہلی اور اہم ذمہ داری نہیں مانی جاتی۔ اب ہیرو کی پوجا ہی اس کی اہم ذمہ داری بن گئی ہے۔"
Published: undefined
ان سطور کو پڑھ کر لگ سکتا ہے کہ یہ سچائی ہندوستان میں آج کی مین اسٹریم میڈیا کے بارے میں کوئی کہہ رہا ہے۔ لیکن یہ بات انگریزوں کی حکومت کے وقت کی ہے، جس وقت ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش غلامی کے دور سے گزر رہا تھا۔ اور یہ باتیں ہندوستانی آئین لکھنے والی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہی تھی۔
Published: undefined
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ہندوستان میں میڈیا کے رویہ کو لے کر بہت افسردہ اور فکرمند رہتے تھے۔ اتنے زیادہ کہ ان کے سامنے مین اسٹریم میڈیا کے بارے میں تلخ تبصرہ کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے ٹھیک وہی کہا تھا جس طرح میڈیا کے بارے میں آج کل عام طور پر رائے رکھی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا "خبروں کے ذریعہ سنسنی پھیلانا، غیر ذمہ دارانہ اشتعال پیدا کرنا اور ذمہ دار لوگوں کے دماغ میں غیر ذمہ دارانہ جذبات کو بھرنے کی کوشش میں لگے رہنا ہی آج کی صحافت ہے۔"
Published: undefined
ہندوستان میں میڈیا کے موجودہ رویہ اور حرکتوں کا موازنہ کس ملک کی صحافت سے کیا جا سکتا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔ لیکن جس وقت ڈاکٹر امبیڈکر نے میڈیا کے رویہ پر تبصرہ کیا، اس وقت ان کے سامنے ہندوستان کی میڈیا کا موازنہ کرنے کے لیے ایک مناسب مثال تھا۔ اپنے گھر کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے ڈاکٹر امبیڈکر کو پوری دنیا کا گہرا تجربہ تھا۔
Published: undefined
ڈاکٹر امبیڈکر نے ایک بار بتایا کہ "لارڈ سیلسبری نے نارتھ کلف کی صحافت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ دفتر کے بابوؤں کے لیے دفتر کے بابوؤں کے ذریعہ لکھی جاتی ہے۔ ہندوستانی صحافت میں بھی یہ سب ہے، لیکن اس میں یہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ وہ ڈھول بجانے والے لڑکوں کے ذریعہ اپنے ہیرو کی تعریف کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔" لارڈ نارتھ کلف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جمہوریت کی اور جمہوریت کے لیے صحافت کی جگہ جمہوریت کے حقوق کا استعمال کر مالکوں کے مفاد کی صحافت کا ماڈل تیار کیا تھا۔
Published: undefined
ڈاکٹر امبیڈکر نے میڈیا کے بارے میں جو باتیں کہیں ہیں وہ آج کے سیاسی ماحول سے بھی میل کھاتا ہے۔ انھوں نے اسوقت کہا تھا کہ ہندوستانی سیاست جدید ہونے کی جگہ ہندوتوا کا عضو بن گئی ہے اور اس کا اتنا زیادہ بازارکاری ہو گیا ہے کہ اس کا دوسرا نام بدعنوانی ہو گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کی میڈیا کے بارے میں رائے سیاست کے ہندوتوا کا عضو ہونے اور میڈیا کے ذریعہ ڈھول بجانے اور ہیرو کی تعریف کرنے کی باتوں کے ساتھ جڑ کر سامنے آئی ہے۔
Published: undefined
ڈاکٹر امبیڈکر نے وقت وقت پر ہندوستانی میڈیا کے بارے میں تبصرہ کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے مین اسٹریم میڈیا میں اعزاز بخشے جانے والی مثالوں پر باتیں نہیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ ہیرو کی پوجا کی تشہیر کے لیے اتنی بے دردی سے ملک کے مفاد کی بھی قربانی نہیں کی گئی۔ لیکن کچھ معزز استثنیٰ بھی ہیں۔ لیکن وہ آوازیں اتنی کم ہیں کہ کبھی سنی نہیں گئیں۔
Published: undefined
ڈاکٹر امبیڈکر نے میڈیا پر اپنے تبصرہ میں اس کے اسباب کی طرف بھی واضح اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ "اپنی بالادستی کو قائم کرنے میں سیاستدانوں نے بڑے صنعت کاروں کا سہارا لیا ہے۔" انھیں افسردہ ہو کر کہنا پڑا کہ "ہندوستان میں صحافت کبھی ایک پیشہ ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ ایک تجارت بن گیا ہے۔ اب تو صابن بنانے کے سوا اس کا کوئی اور کام نہیں رہ گیا ہے۔ یہ خود کو عوام کا ایک ذمہ دار رہنما نہیں مانتی ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز