آخر راز کھل ہی گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نہ ہندوؤں کی، نہ مسلمانوں کی بلکہ صرف سرمایہ داروں کی پارٹی ہے۔ یہ بات پچھلے ہفتے مع ثبوت منظر عام پر آ گئی۔ دہلی کی ایک سماجی تنظیم جو اس بات پر نگاہ رکھتی ہے کہ ایک سال کے اندر کتنے کارپوریٹ گھرانے کس کس سیاسی جماعت کو کتنا چندہ دیتی ہیں۔ اس تنظیم کا نام ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریک ریفارمس(اے ڈی آر) ہے۔ چنانچہ ہر سال کی طرح امسال بھی اے ڈی آر نے کارپوریٹ چندے کے اعداد و شمار پیش کیے اور یہ اعداد و شمار نہ صرف چونکانے والے ہیں بلکہ ان اعداد و شمار سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا کردار صاف ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ملاحظہ ہوں وہ اعداد و شمار۔
(1) بی جے پی کو سال 2012-13 اور سال 2015-16 کے درمیان سب سے زیادہ یعنی 705 کروڑ روپے 2987 کارپوریٹ گھرانوں نے چندہ دیا۔
(2) کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کو سب سے کم چندہ ملا۔ سی پی آئی کی کل چندہ رقم 18 لاکھ روپے ہیں جب کہ سی پی ایم کی رقم 1.89 کروڑ روپے ہے۔
(3) کانگریس پارٹی بی جے پی سے بہت پیچھے ہے لیکن دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی کل رقم اس مدت میں 198 کروڑ روپے ہے۔
(4) اس کے علاوہ متفرق بغیر پین کارڈ کے کل 384 کروڑ روپے کا چندہ ہے جس کی کثیر تعداد بھی بی جے پی کو ہی ملی ہے۔
اب ظاہر ہے کہ بی جے پی پر سرمایہ داروں کی عنایت ہے اور پارٹی پر دولت برس رہی ہے۔ یعنی لوگ اگر یہ کہتے ہیں کہ بی جے پی تو امبانی-اڈانی کی پارٹی ہے تو کچھ بیجا نہیں کہتے۔ لیکن یہ بہت خطرناک بات ہے۔ خطرناک صرف اس لیے نہیں کہ بی جے پی دور حکومت میں صرف سرمایہ داروں کا بول بالا ہے۔ وہ تو ہر دور حکومت میں ہوتا ہی ہے۔ لیکن جمہوری نظام میں جب کوئی پارٹی اپنی حدیں گزار دیتی ہے تو عوام حکومت کو اٹھا کر انتخاب کے موقع پر پھینک دیتی ہے، لیکن بی جے پی یعنی مودی حکومت وہ حکومت ہے جس نے پچھلے تین برسوں میں عوام کے لیے ڈھیلے کا کام نہیں کیا جب کہ امبانی اور اڈانی نے دولت لوٹ لی ، پھر بھی بی جے پی اس مدت میں زیادہ تر چناؤ جیتتی رہی ۔ آخر کیا بات ہے کہ عوام پریشان لیکن بی جے پی پھر بھی مقبول!
یہ ایک انتہائی سنگین بات ہے اور اس کا راز ہندوتوا سیاست میں پنہا ہے ۔ہندوتوا سیاست دو لفظوں میں ہندو ـمسلم بٹوارے کی سیاست ہے۔یعنی ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بو کر ووٹ بٹورنے کی سیاست کا دوسرا نام ہندوتوا ہے۔لیکن اس سیاست کو کامیاب بنانے کے لئے ہندؤں کے ذہن میں صرف مسلم نفرت ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے خوف بھی پیدا کرنا لازمی ہے۔ جب خوف پیدا ہو جائے تو ہندوؤں میں احساس پیدا کرنا بھی لامزی ہے کہ ان کو مسلمانوں سے محض مودی اور بی جے پی ہی بچا سکتی ہے تب ہی تو مودی کو ’ہندو اَنگ رکشک‘ جیسے لقب سے نوازا جاتا ہے۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہوتا ہے! ’لو جہاد‘ ، ’گو رکشا‘ فساد اور دہشت گرد حملے وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعہ ہندو ذہنوں میں مسلمانوں کی ہندو دشمن امیج بنائی جاتی ہے اور پھر ان کو ہندو سماج کے لیے خطرہ بتایا جاتا ہے۔ یہ کام پہلے آر ایس ایس کے ذریعہ ہوتا تھا۔ لیکن اب میڈیا بھی مودی بھکت ہو چکا ہے اس لیے وہ بہ خوبی اس امیج کو بنانے میں مدد کر رہا ہے۔ اسی لیے ان دنوں آپ ٹی وی پر چند احمق قسم کے مسلم افراد روز دیکھتے ہیں جو مسلمانوں کی امیج بگاڑنے کے لیے بٹھائے جاتے ہیں۔
یہ تو رہی ہندو-مسلم بٹوارے اور اس سے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی حکمت عملی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس حکمت عملی کا کارپوریٹ چندے سے کیا تعلق ہے۔ جناب ملک میں مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ٹماٹر سو روپے سے بھی زیادہ مہنگا ہو چکا ہے۔ دال، چاول، گھی، تیل، پھل، سبزی کے دام بڑھ رہے ہیں۔ لوگوں کو روزگار ملنا تو درکنار، جن کے پاس نوکریاں تھیں وہ بھی روزگار سے باہر ہو رہے ہیں۔ کسان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور پولس گولی سے مارے جا رہے ہیں یا قرضے کے بوجھ سے خائف خودکشی کر رہے ہیں۔ دلتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اقلیتیں کسی گنتی میں نہیں ہیں۔
اس سیاسی منظرنامے کے باوجود بی جے پی انتخاب جیت رہی ہے۔ کیوں اور کیسے! وہی ہندوتوا کا کمال! یعنی ملک کی عام عوام میں جس قدر بے چینی پھیلے گی، ہندوتو سیاست اتنی ہی تیز ہوتی جائے گی۔ ٹی وی لوگوں کو بے کار مسائل میں پھانس کر نفرت کی آگ پھیلاتا رہے گا۔ کارپوریٹ گھرانے بی جے پی کو چندہ بڑھاتے جائیں گے اور کارپوریٹ لوٹ بڑھتی جائے گی۔ لیکن ہندو عوام مسلم نفرت کے نشے میں بی جے پی اور مودی کو اپنا ’اَنگ رکشک‘ (محافظ) سمجھ کر انہی کو ووٹ دیتی رہے گی۔
اس کا دوسرا واضح پہلو یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے اگلا لوک سبھا انتخاب قریب آتا جائے گا، ویسے ویسے ملک میں نفرت کی سیاست کا بول بالا ہوتا جائے گا۔ اور یہ بات مسلمانوں کے لیے خطرناک ہے۔ کیونکہ بی جے پی کو انتخاب جیتنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم چاہیے۔ وہ رقم کارپوریٹ چندے سے اکٹھا ہوگی۔ کارپوریٹ چندہ جتنا بڑھے گا، عوام کی پریشانی اور بے چینی اتنی بڑھے گی۔ جس قدر عوامی بے چینی بڑھے گی اس قدر ہندوتوا سیاست کی نفرت بڑھے گی۔
بس یہ ایک خطرناک سائیکل ہے جس میں ہندوستان کا عام ہندو اور مسلمان دونوں پھنس چکا ہے۔ بی جے پی اور کارپوریٹ گھرانوں میں سانٹھ گانٹھ ہو چکی ہے جو ملک کے لیے بھی خطرناک ہے اور اقلیتوں کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ سائیکل کو توڑنے کے لیےایک مسیحا چاہیے۔ دیکھیے وہ کب اور کہاں سے آتا ہے تب تک اسی سائیکل کا حصہ بنے ہندوتوا سیاست جھیلتے رہئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز