ادھر ایک عرصے سے ہندوستان کا ماحول بہت بوجھل ہے۔ ایک عرصے سے نہیں بلکہ کئی برسوں سے بوجھل ہے۔ سماج کا ذی شعور طبقہ مضطرب ہے اور صورت حال کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ حالات کب بدلیں گے کہا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا خود کو تفکرات کے حوالے کرنا اور ملکی مسائل میں گھل گھل کر جینا یا مرنا مناسب نہیں۔ کبھی کبھار کھل کر ہنسنا بھی چاہیے اور قہقہہ بھی لگانا چاہیے۔ اس وقت بھی کئی مسائل ملک کو گھیرے ہوئے ہیں۔ حکومت اور پورا سنگھ پریوار کشمیر فائلس کی آڑ میں ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی عزائم پورے کر سکے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بہانے سے جی کا بوجھ ہلکا کیا جائے اور کچھ لمحات کو خوشیوں کے حوالے کیا جائے۔ لہٰذا اس بار کچھ ہلکے پھلکے موضوع پر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
Published: undefined
کبھی کبھار ہوتا یہ ہے کہ انسان بولتے بولتے کچھ ایسا بول جاتا ہے کہ جو غلط ہونے کے باوجود لطف دے جاتا ہے۔ ایک بار ایک وکیل صاحب ایک مقدمہ ہار گئے۔ ان کے موکل نے کہا کہ آپ اس لیے ہار گئے کہ آپ نے ”سیریستا پوروک“ مقدمہ نہیں لڑا۔ حالانکہ وہ ہندی میں کہنا چاہتے تھے کہ آپ نے گمبھیرتا پوروک مقدمہ نہیں لڑا۔ یعنی آپ نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔ لیکن ہندی اور انگریزی کے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے۔ وکیل صاحب بھی وکیل تھے۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ ان کے موکل نے ہندی اور انگریزی کے دو الفاظ کو غیر ارادی طور پر ایک ساتھ ملا دیا ہے۔ لہٰذا انھوں نے بھی فوراً انگریزی اور ہندی کے دو الفاظ کی آمیزش کرکے ان کو جواب دیا کہ ”آپ نے بھی تو مقدمے کو گمبھیرلی نہیں لیا تھا“۔ یعنی انھوں نے گمبھیرتا پوروک کے ”گمبھیر“ اور سیریسلی کے ”لی“ کو ایک ساتھ ملا کر مرکب تیار کر دیا۔ جب موکل کو اس بات کا احساس ہوا تو چونکہ وہ بھی کچھ پڑھا لکھا تھا لہٰذا وکیل اور موکل دونوں نے قہقہہ لگایا اور شکست کا زخم کچھ دیر کے لیے ہی سہی مندمل ہو گیا۔
Published: undefined
ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ خاص طور پر اگر آپ سیاست دانوں کی تقریروں پر غور کریں تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ ایک بار امت شاہ کرناٹک کی بی جے پی حکومت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ ان کو کہنا تھا کہ کانگریس کی سدھارمیہ حکومت میں کرپشن بہت تھا۔ لیکن وہ کہہ گئے کہ ”یدورپا حکومت میں کرپشن کا بول بالا تھا“۔ جب ان کے برابر میں بیٹھے ہوئے ایک نیتا جی نے ان کو ٹوکا تو انھوں نے اپنی تصحیح کر لی۔ امت شاہ ایسے بیانات دینے میں ماہر ہیں۔ ابھی یوپی کے انتخابات کے موقع پر ایک تقریر کے دوران کہی گئی ان کی یہ بات خوب موضوع گفتگو بنی اور یار لوگوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا کہ ”جو لوگ بارہویں کرکے انٹر میں داخلہ لیں گے ان کو لیپ ٹاپ دیا جائے گا“۔ حالانکہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ دسویں کر کے جو انٹر میں داخلہ لیں گے۔ لیکن زبان پھسل گئی تو پھسل گئی۔ اس بار چونکہ وہ اسٹیج پر تقریر کر رہے تھے اس لیے نہ تو ان کو ٹوکنے والا کوئی تھا اور نہ ہی انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے کچھ غلط کہہ دیا۔ اب لوگ مذاق اڑائیں تو اڑائیں ان کا کیا بگڑتا ہے۔
Published: undefined
ابھی حال ہی میں پاکستان میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا جس پر بہت زیادہ ردعمل ظاہر کیا گیا اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے خوب لطف لیے۔ ہوا یوں کہ پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو حکومت کے خلاف بولتے ہوئے کہہ گئے کہ ”حکومت کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں“۔ حالانکہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہے۔ ان کا اتنا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا تو سوشل میڈیا قومی میڈیا پر بھی خوب مذاق اڑایا گیا۔ اس جملے پر کالم پر کالم لکھ گئے اور پیروڈی کرکے ایک نیا لطف پیدا کیا گیا۔
Published: undefined
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ کی اردو ویب سائٹ پر بھی ایک مزے دار مضمون پوسٹ کیا گیا۔ مضمون کے مطابق ستائیس فروری کو کراچی سے شروع ہونے والا پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ منگل کو اپنی منزل ڈی چوک اسلام آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا۔ البتہ اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل بلاول نے ایک تقریر میں حکومت پر تنقید کی اور جوش خطابت میں ایسا کچھ کہہ بیٹھے جو بعد میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن گیا۔ بلاول نے تقریر کے دوران اسلام آباد میں ”ٹانگیں کانپ رہی ہیں“ کو ”اسلام آباد میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں“۔ کہہ دیا۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جو مخالفین پر طنز کرنے میں کبھی نہیں چوکتے پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ننھا منا لیڈر ایک ننھا منا مارچ لے کراسلام آ باد کے اوپر چڑھ گیا جس سے ہماری”کانپیں ٹانگ گئیں“۔
Published: undefined
بلاول بھٹو کی زبان کیا پھسلی سوشل میڈیا صارفین کو بھی تفریح کا موقع ہاتھ لگ گیا۔ مہوش ملک نامی سوشل میڈیا صارف نے وصی شاہ کی غزل آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کے کچھ اشعار کو کچھ اس طرح تحریر کیا کہ ”سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں،تیری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔ تیرے کوچے سے اب میرا تعلق واجبی سا ہے، مگر جب بھی گزرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی کراچی میں تقریر کرتے ہوئے سابق صدر اور بلاول کے والد آصف علی زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کے واسطے اسے(اپنے بیٹے کو) اردو سکھاؤ۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے انگریزوں کو دو برسوں میں اردو سیکھتے دیکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ کہتے ہوئے خود وزیراعظم کی زبان تھوڑی سی لڑکھڑا گئی تھی۔
Published: undefined
اس کے جواب میں مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز شریف نے صحافی فاضل جمیلی کی شیئر کردہ ایک ویڈیو ٹوئٹ کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے سال 2018 میں عمران خان اس وقت کے صدر ممنون حسین سے وزارت عظمیٰ کا حلف لے رہے ہیں اور اس دوران ان کی زبان اٹکتی ہے اوران سے ”خاتم النبین“ کا لفظ درست ادا نہیں ہوتا۔ بعد ازاں وہ صدر کی جانب سے کہے گئے لفظ روزِ قیامت کو روزِ قیادت پڑھتے ہیں جسے پھر سے درست کرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان ایک ٹرین منصوبے کے بارے میں یہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ لائٹ کی اسپیڈ سے بھی تیز دوڑے گی۔ مگر یہ کہہ گئے کہ یہ اسپیڈ کی لائٹ سے بھی تیز ہوگی۔
Published: undefined
ایک بار آصف علی زرداری بطور صدر بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینے پہنچے تو انہوں بانی پاکستان کو ”علیہ السلام“ کہتے ہوئے ان کی سالگرہ کو برسی کہہ گئے۔ جبکہ عمران خان اے پی ایس سانحے میں جان سے جانے والوں کی دوسری برسی پر پہنچ کر اسے سالگرہ بتا دیا۔ آصف زرداری کی اپنی ہی پارٹی کے رہنما منظور وسان ایک بار میڈیا سے گفتگو میں انہیں ”کو چیئرمین“ کے بجائے”چور چئیرمین“ پکار چکے ہیں۔
پاکستان کے معروف کالم نویس عطاءالحق قاسمی نے تو اس موضوع پر ایک کالم لکھ مارا۔ انھوں نے کئی پیروڈی کر دی۔ ایک پیروڈی ملاحظہ ہو:
مجھے اپنا بتاتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
یہ شیدا مسکراتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
نہیں ہے خوف پرنالے کے پانی کا مجھے لیکن
جو بادل گڑگڑاتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
بلاول میں کسی بھی اور بالر سے نہیں ڈرتا
مگر عمران آتا ہے تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
Published: undefined
انھوں نے اپنے کالم کے آخر میں لکھا کہ آخر میں اسی طرح کی ایک اور شرارت ملاحظہ فرمائیں۔ یہ بہت تخلیقی شرارت ہے اور اس کے ساتھ ہی قارئین سے گزارش ہے کہ اب آپ بچارے کا پیچھا چھوڑ دیں ”غلطان سے انسی ہو ہی جاتی ہے“ (انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے)
انھوں نے اپنا کالم اس پیروڈی نما تبصرے پر ختم کیا کہ بلاول کی تقریر سن کر پانکھوں میں آنی آ گیا اور پھر دل کیا کہ موقع کی خوشی پر حاجر کا گلوہ کھا لوں مگر گھر میں بس آلے انڈو اور مالو اٹر پکے ہوئے تھے اور پھر تسلی کو دل دیا کہ ”دشت تو دشت ہے صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے، بحر ظلمات میں گھوڑا دیے دوڑے ہم نے“۔
بہرحال زبان اپنی ہو یا پرائی کبھی نہ کبھی پھسل ہی جاتی ہے۔ مگر عوام کو مفت تفریح میسر آئے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اس کا امکان کم ہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined