فکر و خیالات

28 ستمبر 1857ء: ’سقوط مالا گڑھ‘ کی یاد میں خصوصی پیشکش... شاہد صدیقی علیگ

نواب ولی داد خاں 1857ء کی جنگ آزادی کے عظیم گمنام رہنما تھے، وہ بہادر شاہ ظفر کے سمدھی تھے، جب میرٹھ کے باغی سپاہ 11 مئی 1857ء کو ظل الٰہی کے حضور میں پیش ہوئے توموصوف دہلی میں موجود تھے۔

<div class="paragraphs"><p>مقامِ مالاگڑھ قلعہ</p></div>

مقامِ مالاگڑھ قلعہ

 

تصویر: بشکریہ شاہد صدیقی علیگ

میرٹھ میں 10 مئی 1857ء کو دیسی سپاہیوں نے جو بغاوتی طبل بجایا تھا، اس کی گونج سے کلکتہ تا پیشاور وسیع وعریض حلقے بھی لرز اٹھے اور آن ہی آن میں کمپنی امارت کی مستحکم بنیادیں ہل گئیں۔ کمپنی بہادر کے خلاف انقلاب بلند کرنے کی حکمت عملی کو وضع کرنے والوں میں نواب ولی داد خاں مالاگڑھ ضلع بلند شہر کا بھی اہم رول ہے۔ جن کے استقلال، شجاعت اور دلیری کے دوآبہ، بریلی اور لکھنو کے جنگی محاذ گواہ ہیں۔

Published: undefined

نواب ولی داد خاں بہادر شاہ ظفر کے سمدھی تھے۔ جب میرٹھ کے باغی سپاہ 11 مئی 1857ء کو ظل الٰہی کے حضور میں پیش ہوئے تو موصوف دہلی میں موجود تھے۔ باغی سپاہیوں کی منت سماجت کرنے کے بعد بہادر شاہ ظفر دہلی کے تخت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے نواب صاحب کو صوبہ دار دوآبہ مقرر کر دیا، جنہوں نے 26 مئی 1857ء کو دلّی سے لوٹتے ہوئے اثنائے راہ غازی آباد سے ہی نظم و نسق کو درست کرنا شروع کر دیا۔ دادری میں گوجر رہبروں سے گفتگو کے لیے رُکے۔ مالا گڑھ پہنچتے ہی نواب موصوف کا ساتھ دینے کے لیے قرب و جوار کے امیر، جاگیردار، زمیندار، بارہ بستی کے پٹھان اور ایمن گوجر کی کمان میں گوجر بھی ان کے کارواں میں شامل ہو گئے۔ نواب صاحب نے دانائی اور فراست سے بلند شہر تا علی گڑھ اجارہ داری قائم کر لی۔ ان کی فوج نے انگریز حکام کو بلند شہر سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن حلقے میں برطانوی خیر خواہوں کی کوئی کمی نہیں تھی جنہوں نے کلکٹر سپٹ کی ہر ممکنہ اعانت کی۔

Published: undefined

20 جون 1857ء کو انگریزی دستے نے دو ہزار علاقائی غداروں کے ساتھ مالاگڑھ پر یلغار کی، جس کو محمد اسماعیل خاں نے ناکام کر دیا۔ ابن الوقت بھٹونہ جاٹوں کی معاندانہ حرکتوں نے نواب صاحب کو گہری سوچ میں مبتلا کر دیا۔ جولائی کے اواخر میں ولی داد خاں نے گلاﺅٹھی سے دلّی کوچ کرنے کا ارادہ کیا مگر انگریزی مخبروں کے سبب انجام کو نہ پہنچا سکے، لیکن وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ دشمنان وطن کو سبق سکھانے کے لیے بادشاہ سلامت سے فوجی دستے بھیجنے کی متعدد درخواست کیں تو بہادر شاہ ظفر نے 21 اگست 1857ء کو مالاگڑھ فوجی لشکر روانہ کیا۔ جس کے بعد ولی داد خاں نے ہاپوڑ اور میرٹھ پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ جسے سنتے ہی انگریزوں کے ہوش باختہ ہو گئے۔ 10 اگست کو نواب صاحب نے ہاپوڑ کی جانب پیش قدمی کی، جس کو روکنے کے لیے میرٹھ سے انگریزی دستے بھیجے گئے، مگر وہ ہاپوڑ سے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کر سکے۔

Published: undefined

10 ستمبر کو ولی داد خاں نے میرٹھ پر حملہ کرنے کے لیے پیش رفت کی لیکن ہاپوڑ میں خیمہ زن کمپنی فوج نے گلاﺅٹھی میں ان کا راستہ روکا۔ میجر سائر اور لیفٹیننٹ اسمتھ کے مابین انقلابی فوجیوں کی کانٹے کی ٹکر ہوئی اور فرنگیوں کو میدان چھوڑنا پڑا۔ تاہم سقوط دلّی کے بعد بساط پلٹ گئی۔ مغلیہ سلطنت کو ماضی کا حصّہ بنا کر لیفٹیننٹ کرنل ایڈورڈ گریتھ ہیڈ 24 ستمبر کو روانہ ہوا۔ جس کے پاس قلعہ مالاگڑھ کا نقشہ اور انقلابیوں کی تمام خفیہ سرگرمیاں موہن لعل کشمیری کے بذریعہ پہنچ چکی تھی۔ علاوہ ازیں انگریزوں نے نواب صاحب کے گولہ بارود کے انچارج وکرم سنگھ کو بھی خرید لیا۔ سودے بازی پوری ہونے کے بعد کمپنی فوج 28 ستمبر کو مالاگڑھ قلعہ پر حملہ آور ہوئی۔ ولی داد خاں نے توپ خانے کے سربراہ اندر سنگھ کو انگریزی فوج پر گولے داغنے کا حکم دیا۔ جب وکرم سنگھ سے گولے طلب کیے تو اس وطن فروش نے بارود خانے کی چابی کھو جانے کا بہانہ کیا۔ کیونکہ وہ اپنے آقاﺅں کے اشارے پر پیشتر گولہ بارود کنویں میں پھینک چکا تھا۔ لہٰذا ولی داد خاں کے توپچی جوابی گولہ باری نہیں کر سکے۔ انقلابی فوجوں اور دلّی سے آئی جھانسی بریگیڈ کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ لہٰذا نائب سپہ سالار رام سنگھ اور سلن سنگھ کی صلاح پرولی داد خاں مالاگڑھ قلعہ کو خیر باد کہہ کر خان بہادرخاں کے قافلہ میں جا ملے اور بریلی میں دوسرے قائدین سے مل کر انگریزوں کے خلاف لائحہ عمل تیار کیا۔ 5 مئی کو روہیل کھنڈ میں فیصلہ کن جنگ کا بگل بجا تو ولی داد خاں نے خان بہادر خاں، بندے خاں اور فیروز شاہ وغیرہ نے حق مردانگی ادا کیا، لیکن بازی کمپنی کے ہاتھ لگی۔

Published: undefined

بریلی کی ہار کے بعد بھی ولی داد خاں نے فیروز شاہ اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ مین پوری اور اٹاوہ اضلاع میں اپنی شمشیر زنی کے جوہر دکھائے۔ بعد ازاں اودھ پہنچے اور بیگم حضرت محل کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اودھ میں متعدد خون ریز جنگوں کے بعد بیگم حضرت محل نے لکھنو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے بھی حضرت محل کے ساتھ رخت سفر باندھا۔ جب انقلابی لشکر بوندی سے گزر رہا تھا تو ولی داد خاں کے اچانک درد گردہ اٹھا جس کے عارضہ میں انتقال کر گئے۔

Published: undefined

ولی داد خاں کے قلعہ کے باقیات کا ایک ایک ذرہ آج بھی 1857ء کی جنگ آزادی میں ان کے عظیم کردار اور قربانی کی یاد دلا رہا ہے کہ ان کی رہنمائی میں کس طرح ہندو مسلمان کی متحد مدافعت نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined