اپریل 2004 میں لوک سبھا انتخابات ہو رہے تھے ۔ ان دنوں اسٹار نیوز (آج کا اے بی پی نیوز) ممبئی سے آپریٹ ہوتا تھا۔ میں اس وقت اسٹار نیوز میں ہی کام کرتا تھا اور انتخابی ٹیم کا حصہ تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر عام لوگوں کے مسائل، لیڈروں کے وعدوں اور دیگر چیزوں کے تعلق سے خصوصی پروگرام کر رہے تھے۔ انہیں پروگراموں کے سلسلے میں ہم نے ایک پروگرام مہاراشٹر کے رتنا گری میں بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ۔
ممبئی سے رتنا گری کا فاصلہ تقریباً 350 کلومیٹر ہے۔ ہم صبح کے 10 بجے ممبئی سے نکلے اور ممبئی-ناسک روڈ سے رتناگری کی طرف روانہ ہوئے ۔
میں پہلی بار اس راستہ سے گزر رہا تھا اس لیے دلچسپی سے خوبصورت راستوں، پہاڑوں سے گرتے ہوئے آبشاروں، دور دور تک پھیلے کھیتوں، ناریل کے درختوں اور راستے میں پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گاؤں کو دیکھ رہا تھا۔ راستے میں ایک جگہ ٹھہر کر ہم نے کھانا کھایا اور پھر رتنا گری کے لئے چل پڑے۔
ہم شام تقریباً 7 بجے رتنا گری پہنچے۔ ہماری ایک ٹیم اور رپورٹر پہلے ہی رتنا گری میں موجود تھے جنہوں نے انتخابی شو کرنے کے لئے لوکیشن وغیرہ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ بہر حال ہم ہوٹل پہنچے اور سفر کی تھکان کی وجہ سے جلد ہی سو گئے۔
Published: undefined
اگلی صبح ہم سب سے پہلے لوکیشن دیکھنے پہنچے۔ اسی دن شام کو ہمیں شو کرنا تھا، وہ بھی لائیو ، اس لئے تیاریوں کا جائزہ بھی لینا تھا۔ رپورٹر نے ہمیں بتایا کہ شو کے لئے تھیبا پلیس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مجھے اس وقت تک اس تاریخی مقام کے تعلق سے کوئی جانکاری نہیں تھی۔ ویسے بھی شمالی ہندوستان کا باشندہ ہونے کے ناطے مہاراشٹر کے بارے میں زیادہ کچھ پتہ ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔
تھیبا پلیس پہنچنے کے لئے جب ہماری گاڑی آبادی والے علاقے سے نکل کر ایک پہاڑی کی چوٹی کی جانب گامزن تھی تو ایک سرے سے دور دور تک سمندر کی لہریں نظر آ رہی تھیں۔ ہم ایک پہاڑی کی چوٹی تک پہنچے اور ایک پرانی سی عمارت کے دروازے پر گاڑی رک گئی۔
یہ کوئی دو ڈھائی مربع میٹر کا احاطہ تھا جس کے وسط میں پرانے زمانے کی ایک عمارت بنی ہوئی تھی۔ پورے احاطے میں گھاس اور جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں ۔لیکن عمارت کے آگے بنے کمپاؤنڈ تک جانے والے راستے میں صاف صفائی نظر آ رہی تھی۔ ہم آگے بڑھے اور کمپاؤنڈ سے ہوتے ہوئے پورچ کے راستے جب اندر گئے تو کافی صاف ستھرا ماحول تھا۔ یہیں ہمیں پتہ چلا کہ یہ جگہ در اصل برما (اب میانمار) کے جلا وطن کیے گئے بادشاہ تھیبا کا محل ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اچانک بادشاہ تھیبا کی بات کیوں ہو رہی ہے؟ تو بتاتے چلیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی میانمار کے دورے پر گئے تھے ۔ ان کے دورے کی سیاسی اور سفارتی وجوہات سے الگ یہ خبر بھی آئی کہ نریندر مودی نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مزار پر حاضری دی۔ بہادر شاہ ظفر کو انگریزی حکومت نے جلا وطن کرکے برما بھیج دیا تھا اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا۔ جلا وطنی کے دوران بہادر شاہ ظفر اپنے ملک ہندوستان کو بہت یاد کیا کرتے تھے۔ ان کا ایک مشہور شعر اس تکلیف کو بخوبی بیان بھی کرتا ہے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گززمیں بھی نہ ملی کو ئے یار میں
جس برما میں بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کیا گیا تھا اسی برما کے آخری بادشاہ تھیبا کو انگریزوں نے برما سے جلا وطن کر 3 ہزار کلومیٹر دور رتنا گری بھیج دیا تھا۔
تھیبا برما کے کانبانگ خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ انگریزوں کے ساتھ جنگ میں برما کی شکست کے بعد 1885 میں برما پر انگریزی راج قائم ہو گیا ۔ جس وقت برما انگزیزی سامراج کے قبضہ میں آیا اس وقت بادشاہ تھیبا نوجوان تھے اور ان کی عمر محض 26 سال تھی۔ انگریزوں نے بادشاہ تھیبا اور ان کے خاندان کو جلا وطن کر دیا جس کے لئے ساحل سمندر پر آباد جزیرہ نما شہر رتنا گری کا انتخاب کیا گیا۔ اس وقت رتنا گری کی آبادی محض 10-11 ہزار کی رہی ہوگی۔ شروع میں بادشاہ تھیبا اور ان کے خاندان (ان کی دو ملکہ اور دو بیٹیوں )کو دھرنگاؤں میں بنے سر جیمز آٹرم کے بنگلے میں رکھا گیا۔ اسی دوران ان کے لئے ایک محل کی تعمیر کی گئی جو بعد میں تھیبا پلیس کے نام سے مشہور ہوا۔
بادشاہ تھیبا کو شروع میں تقریباً ایک لاکھ روپے کی پنشن ملتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اسے کم کر دیا گیا۔ 57 برس کی عمر میں جب بادشاہ تھیبا کی موت ہوئی تو ان کی پنشن 25 ہزار روپے بھی نہیں رہ گئی تھی۔ موت کے بعد انہیں محل کے ہی نزدیک دفن کر دیا گیا۔ کچھ دن تک خاندان کے لوگ وہیں رہے اور پھر یکے بعد دیگرے پورا خاندان بکھر گیا۔
اسی تھیبا پلیس میں آج بادشاہ تھیبا اور ملکہ کا مقبرہ بھی موجود ہے۔ ان کے کچھ شاہی ساز و سامان کا ایک میوزیم بھی یہاں پر ہے جس میں کچھ صحیفے رکھے ہوئے ہیں۔
ہمیں پروگرام چونکہ شام کو کرنا تھا، تو اس دوران ہمارے پاس تھیبا پلیس کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل گیا۔ محل کے احاطے میں پروگرام کے لئے صحیح جگہ کا انتخاب کرنے کے لئے ہمیں یہاں کی کافی صاف صفائی بھی کرنی پڑی۔
آج جب یہ خبر سامنے آئی کہ وزیر اعظم نریندر مودی میانمار میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مزار پر گئے تھے تو اچانک یہ باتیں یاد آنے لگیں۔ تھیبا پلیس میں پورا ایک دن گزارنے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ بادشاہ تھیبا بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح شاعر ہوتے تو شاید کچھ ایسا ہی لکھتے…
کتنا ہے بدنصیب تھیبا، دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined