لکھنؤ کی شاہی عمارتوں کی تاریخ دلچسپ اور عبرتناک بھی ہے۔ نوابوں، بادشاہوں، ملکہ اور خواجہ سراؤں کی تعمیر کردہ عمارتوں کو دیکھنے کے دوران اب درد ہوتا ہے۔ ماضی کی چمک دمک، شاندار انتظامات اور حال کی کسمپرسی کا موازنہ کیا جائے تو سوائے اذیت کے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
اودھ اور خصوصی طور سے شہر لکھنؤ میں شاہی دور میں جس طرح سے عالیشان اور نفیس عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ،اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہے مگر انگریزوں کی لوٹ مار اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لٹیروں کی حرکتوں نے ان عمارات کو تہس نہس کردیا۔ غدر کے ہنگام میں شیشہ آلات اور دیگر قیمتی اشیاء کو کمپنی بہادر کے سپاہیوں نے اپنی جیبوں میں ٹھونسا اور چلتے بنے۔ جب سے اب تک سوائے تباہی و بربادی کے کچھ بچا نہیں ہے۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
تاریخ کے سنہری صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھئے تو دل ٹوٹے گا اور ذہن افسردہ ہوجائے گا، نادر ونایاب سامان جس کی مثال مغربی ممالک کے علاوہ کہیں نہیں ملتی ان اشیاء کی لوٹ مارچشم زدن میں ہو گئی۔ امامباڑے،مسجدیں،محل،عمارتیں اور قلعہ مسمار ہوئے،ان کا سامان غائب کیا گیا اور لوٹ کے اس شروع ہوئے سلسلہ میں اپنے بھی شریک ہوئے۔ شاندار اور بے مثال عمارتوں کی لوٹ کھسوٹ میں آزاد ہندوستان کی حکومتوں اور ان کے متعصب افسر شاہوں نیز ان کے حاشیہ برداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،الغرض جو گوروں کی فوج سے بچ گیا اس کو ہم کالوں کے ہجوموں نے ڈٹ کر لوٹا۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
لکھنؤ اپنے دامن میں سیکڑوں عمارتوں کو سمیٹے ہوئے ہے لیکن کبھی یہ تعداد ہزاروں میں تھی ،اب سیکڑوں میں بھی باقی نہیں ہے، جو کچھ بچا ہے اسکو سرکاری اہلکار اور وقف کے نکمے ذمہ داران لوٹ رہے ہیں۔
آج ہم آپ کو شہر لکھنؤ کے قدیمی محلہ وزیر باغ کے ایک شاندار امامباڑے کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کریں گے۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
مغل صاحبہ کا امامباڑا اپنے فن تعمیر اور اسٹوکو ورک کے لئے مشہور ہے مگر یہاں بھی انتظامیہ کا لا پرواہی کادور جاری رہا،یہاں ناجائز قبضوں کی بھرمار ہے،خوبصورت حوض سوکھا پڑا ہے،امامباڑے کے صحن کو بچے اور بڑے کرکٹ اور گلی ڈنڈا کے لئے استعمال کرتے ہیں۔عمارت اندر اور باہر سے شاندار ہے،محکمہ آثار قدیمہ نے ترس کھا کر کچھ حصوں کی مرمت کاری کرا دی، مگر یہ قدم ناکافی ہے۔
اودھ کے تیسرے بادشاہ محمدعلی شاہ(1837-1842) کی بیٹی فخرالنسا، امت الصغرا نے اس شاندار عمارت کو تعمیر کروایا تھا۔ ان کے شوہر مجاہد الدولہ فخر الدین سیف الملک زین العابدین خاں جلاوت جنگ تھے۔ جو اپنی خوبصورتی اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ شاہی سواری جب نکلتی تو راستے بند ہوتے اور سڑک پر لوگ ان کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ لیکن ان کا دل نہیں لگا، کلکتہ کے بعد عراق چلے گئے اور وہیں زندگی کے آخری ایام گزارے۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
مغل صاحبہ کے امامباڑے کی شان عمارت کے اعلی دروازے تھے جو اب ناجائز قبضوں کی وجہ سے ٹوٹ چکے ہیں اندر کے حصوں میں رہنے والوں نے بے تکی عمارتیں کھڑی کر لی ہیں۔
ایک خوبصورت مسجد ہے جو کسی زمانے میں قبضوں سے پاک صاف تھی اس کو بھی ناجائز قبضہ داروں نے گھیر لیا ہے اور اس کا صحن تنگ ہو چکا ہے۔
مورخ آغا مہدی کا کہنا ہے کہ شہزادی صاحبہ اس امامباڑے کو حسین آباد کے شاہی امامباڑے کی طرح سجانا چاہتی تھیں۔ امامباڑے میں جھاڑ، فانوس اور شیشہ آلات سے اس کی رونق بڑھانا چاہتی تھیں مگر شہزادی کو موت نے مہلت نہیں دی۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
امامباڑہ چونکہ وزیر باغ میں واقع ہے جو مغل صاحبہ کی ماں کے نام پرآباد ہے۔ ایک زمانے میں اس محلہ میں بہت ہریالی ہوا کرتی تھی۔ امامباڑے کی خوبصورتی قابل دید تھی۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
بلند چھت اور بڑے دروازوں والی اس عمارت کا منبر رسولﷺ بھی اپنی شناخت رکھتا ہے۔ لکھنؤ کےدو امامباڑوں کے منبر شاندار اور بلند ہیں۔ ایک حسین آباد کا امام باڑہ اور دوسرا مغل صاحبہ کا امام باڑہ اپنے خوبصورت منبروں کے لئے بھی مشہور ہے۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
اس امامباڑے کے باہر ایک نوبت خانہ بھی تھا۔ چونکہ سرکار یا وقف بورڈ کو اس عمارت سے کچھ ملتا نہیں ہے اس لئے سیاحت کے نقشہ میں عمارت کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور اسی لئے یہاں سیاح نہیں آتے ہیں اور نہ ہی اس امامباڑے کو ریاستی حکومت نے اپنی فہرست میں شامل کیا ہے۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Mar 2018, 6:12 PM IST