فن تعمیرکے ارتقائی سفر میں دو مرحلے اتنے اہم ہیں کے فن تعمیرکی ارتقا ء تمام ترتاریخ کودو ادوار میں منقسم کیا جا سکتا ہے، ان مراحل کو سر کرنے سے پہلے کی تاریخ اور انہیں سر کرلینے کے بعد کی تاریخ ، یہ دو مراحل ہیں محراب اور گنبد کا ارتقاء - شہر نامہ میں فن تعمیر اور اس سے منسلک سوالوں پر گفتگو کا جو سلسلہ ہم نے میناروں اور مساجد کے باہمی رشتے پر مبنی تین مضامین سے کیا تھا اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آیندہ چند ہفتے ہم محراب اور گنبد کی ارتقاء پر قرون وسطہ میں برصغیرمیں ہونے والی تعمیرات کے حوالے سے بات چیت کرینگے ۔
اس سلسلے کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم اصلی محراب اور اس سے پہلے بننے والی محرابوں کی ہییت سے آپ کو روشناس کروا دیتے ہیں یہ شکلیں آپ کے ذہن میں رہینگی تو آنے والے حوالے سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی - بنیادی طور پر صرف دو ہی طرح کی محرابیں ہوتی ہیں ان کے علاوہ ایک اور ہییت ہے جس نے محراب کی ارتقا ءکو ممکن بنایا تو گویا ہم محرابوں کے جد امجد سے لےکر اصلی محراب کے ارتقا ءتک کا جایزہ لیں گے۔
حضرت انسان نے پیڑوں سے اترنے کے بعد غاروں میں پناہ لی، آگ سے روشناس ہوئے، آگ کی مدد سے روشنی کا استعمال کرنا سیکھا، جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے آگ کو ہتھیاربنایا اور کھانا پکانے کی شروعات بھی آگ سے متعارف ہونے کے بعد ہوئی- خانہ بدوشی ترک کر کے کھیتی کی طرف رجوع کیا، اس کے ساتھ ہی گھروں کی، یا یوں کہہ لیں کے پہلے پہل جو بھی جھونپڑی نما گھر بنائے گئےیاان کی تعمیر شروع کی گئی ۔ سیکڑوں یا شاید ہزاروں برس بیتنے کے بعد ہی جھونپڑیوں میں چوکھٹ اور دروازے لگنا شروع ہوئے ہوں گے ۔
ہماری کہانی اس قدیم چوکھٹ سے شروع ہوتی ہے ۔ یہ چوکھٹ اتنی قدیم ہے کے آپ دیکھ لیں تو کبھی آپ کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئے کہ یہ ساری چوکھٹوں کی جد امجد ہے ۔ دو مضبوط تنے زمین میں گاڑ دیئے جاتے تھے اور ان کے اوپر ایک موٹی شاخ پھنسا دی جاتی تھی، یہ دروازے کی شروعات تھی- شروعاتی دور میں توشاید کانٹےدار جھاڑیاں پھنسا کر حفاظت کا انتظام کیا جاتا ہوگا، پھرپتلی سیدھی ٹہنیوں کو بیلوں سے باندھ کر دروازے بنائے گئے ہوں گے اور پھر انھیں چوکھٹ میں باندھنے کا انتظام کیا گیا ہوگا۔
صدیوں تک چلنے والے اس سلسلے کے دوران ہی لوگوں نے تانبا دریافت کیا ہوگا، پھرکانسا بنانا سیکھا، لوہا دریافت کیا، لوہے کے اوزار آری، چورسی، ریتی، رندے بنائے، لکڑی چیری گئی ،لکڑی کے دروازے بنے، لوہے کی چھینی اور ہتھوڑے بنے، پتھرتراشے گئےاور تب پتھر کے ستون اور شہتیروں نے پیڑوں کے تنوں اورموٹی شاخوں سے بنائے جانے والے دروازوں کی جگہ لی ۔ اب زیادہ عظیم اور مضبوط عمارتوں کی تعمیر ممکن ہوئی ۔ تعمیر کی تکنیک میں یہ ایک انقلاب تھا۔ پتھروں کے ستونوں اور شہتیروں سے بننے والے مکانات کہیں زیادہ مضبوط ہوتے تھے اور اب یہ ممکن تھا کے پتھروں سے بنی ہوئی عمارا ت میں لکڑی کی چوکھٹ اور پللے نصب کیے جا سکیں۔
فن تعمیر میں رونما ہونے والے اس انقلاب سےجہاں پہلے کی بہ نسبت زیادہ مظبوط عمارات بنانا اور پہلی منزل کی مضبوطی بڑھ جانے کی وجہ سے دومنزلہ مکان بنانا ممکن ہو گیا تھا وہاں ایک نیامسئلہ بھی پیدا ہوا ۔اب دوسری منزل کا وزن نچلی منزل کے دروازوں کے شہتیروں پر آن پڑا اور اوپری منزل کے وزن کی تاب نہ لا سکنے کی وجہ سے شہتیر ٹوٹنے لگے اور پہلی منزل کی چھتیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں۔ اس مسئلے کا جوعلاج نکالا گیا اسے انگریزی میںArch Corbelld کہتے ہیں۔ اردو میں اسے مورنی یا توڑا کہتے ہیں اس کے لئے زاغ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے ۔
Published: 12 Nov 2017, 8:05 PM IST
اوپردی ہوئی تصویر میں جو عمارت ہے وہ محمد بن تغلق نے تعمیرکروائی تھی اور اس کا نام اس نے بجے منڈل رکھا تھا عمارت میں داخل ہونے والا در بیچ میں ہے اسکے دونوں طرف زینوں کےلیے راستے ہیں جو دو ستونوں اور ایک شہتیر کی مدد سے بنائے گئے دروازے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔ بیچ والا در، زاغ یا توڑے دار محراب کہلاتا ہے۔ یہ محراب ستونوں اور شہتیروں سے بنائے جانے والے دروازوں میں شہتیر ٹوٹنے کی پریشانی پر قابو پانے کے لئے ایجاد ہوئی۔ آمنے سامنے ایستادہ ستونوں پر دو اور کئی مرتبہ تین توڑے اس طرح نسب کیے جاتے تھے کہ ایک طرف تو وہ دیوار میں پیوست ہوتے تھے اوردوسری طرف وہ سامنے والے توڑے کی طرف بڑھے ہوتے تھےاس طرح ستونوں کے بیچ کی دوری بتدریج کم ہوتی جاتی تھی اب توڑوں کے ان جوڑوں کے اوپر شہتیر رکھی جاتی تھی۔ الٹے زینے کی شکل کی محراب اسطرح وجود میں آئی- اس طرز کی محراب دنیا کے مختلف خطّوں میں استعمال کی جاتی تھی اور یہ کہنا مشکل ہے کے کس تہذیب نے سب سے پہلے اسکا استعمال کیا۔
اس محراب کی مدد سے، پہلے بننے والے دوازوں کی بہ نسبت، زیادہ چوڑے دروازے بنانا ممکن ہو گیا، کیونکہ توڑے شہتیر کو نیچے سے سہارا دیے رہتے تھے اس لئے یہ محراب ستونوں اورشہتیروں کی مدد سے بنائی جانے والی محرابوں کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہوتی تھی توڑے دار محرابوں کی ایجاد کے بعد اوپر کی عمارت کے وزن سے شہتیر ٹوٹنے کے حادثات میں بھی کمی آئی۔
ہندوستان میں سیکڑوں برس تک اسی شکل کی محرابوں کی تعمیر ہوتی رہی تمام پرانے مندروں میں اس شکل کی محرابیں آج بھی ملتی ہیں۔ کیونکہ سیکڑوں برس تک اس شکل کی محرابوں کی تعمیر ہوتی رہی تھی اس لئے ہندوستانی سنگتراشوں نے ان محرابوں کو بنانے میں نہ صرف ایک خاص قسم کی مہارت حاصل کرلی تھی بلکہ انہوں نے ان محرابوں کی آرائش کے لئے مخصوص نقش و نگار بھی متعین کر لئے تھے ، پہلے توڑے کا وہ حصّہ جو باہر کی سمت نکلا ہوتا تھا اس کوعام طور پر کیلے کی کلی کی شکل دی جاتی تھی، اس کے اوپر والے توڑے پر کمل کے پھول کی شکل نقش کی جاتی تھی اور تیسرا توڑا، جس پر شہتیر ٹکایا جاتا تھا، عام طور پر سونڈ اٹھائے ہوئے ہاتھی کے سر کی شکل میں ، جسے گج لکشمی کہا جاتا ہے، تراشا جاتا تھا۔
بارھویں صدی کی آخری دہائی میں محمد غوری نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دی اپنےکماندار، ترکی غلام قطب الدین ایبک، کو آزاد کر کے جنّت جانے کا راستہ ہموار کیا ، ایبک کو دلی کی کمان سونپی اور غورکا رخ کیا- ایبک کے وقت سے لے کر تغلق حکومت کےآخری دنوں، سن 1413، تک ترکوں کااثر باقی چیزوں کے علاوہ اس دور کی تعمیرات میں بھی نظر آتا ہے۔ اس سب کے بارے میں با تفصیل گفتگو کا یہ موقع تو نہیں ہے ، ہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آخری مملوک سلطان غیاث الدین بلبن کا مزار وہ عمارت ہے جس میں مخروطی محراب جسے True Arch بھی کہا جاتا ہے اور گنبد کا استعمال سب سے پہلے ہوا ۔اوپر اس بات کا ذکر آ چکا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ توڑیدارمحراب کس کی ایجاد ہے مگر اصلی محراب کے بارے میں ایسا نہیں ہے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کے اصلی محراب جس کی خاصیت مثلث کی شکل میں تراشا ہوا وہ سنگ کلیدیkey Stone ہے جو محراب کو دو برابر حصّوں میں منقسم کرتا ہے اور جس پر اوپری منزل کا سارا وزن ٹکا ہوتا ہے سب سے پہلے روم کے لوگوں نے استعمال کیا تھا اور عام طور پر لوگ اس بات پر متفق ہیں کے اصل محراب روم کی ہی ایجاد ہے۔
Published: 12 Nov 2017, 8:05 PM IST
بلبن کے مزار کی تعمیر سنہ 1287 میں ہوئی، یہیں پہلی بار مخروطی محراب کا استعمال کیا گیا ، جبکہ ترک 1192 میں ہی دلی آگئے تھے ، اس کا مطلب یہ ہوا کے ترکوں کے دلّی آجانے کے 95 برس بعد تک اصلی محراب کا استعمال ہندوستانی تعمیرات کا حصّہ نہیں بنا تھا ۔
ایسا کیوں ہوا اور 95 برس کے اس طویل عرصے میں کس طرح کی تعمیرات ہوئیں - ان سوالوں اور ان سے جڑے دوسرے سوالوں کے بارے میں اگلی قسط میں بات چیت کر یں گے۔
Published: 12 Nov 2017, 8:05 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Nov 2017, 8:05 PM IST