پریاگ راج: الہ آباد ہائی کورٹ نے غیر سرکاری تنظیموں (این جی او) کو دیئے جانے والے سرکاری گرانٹ کے معاملے پر سوال اٹھاتے ہوئے اترپردیش کی یوگی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ دیوریا شیلٹر ہوم معاملے کی سماعت کے دوران عدالت نے ریاستی حکومت سے حلف نامہ مانگا ہے اور سوال کیا ہے کہ جو این جی او شیلٹر ہوم سمیت دیگر سماجی فلاحی کام کر رہے ہیں،کیا وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کرر ہے ہیں۔ حکومت بتائے کہ وہ این جی او کو کیوں فروغ دے رہی ہے۔ ایسی تنظیموں کو سرکاری عطیہ کیوں دیا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ جواین جی او وغیرہ سماجی خدمت اور اطفال و فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ خود کا پیسہ لگا کرکریں اس کے لئے وہ سرکاری فنڈ سے رقم جاری کیے جانے کے بھروسے پر کیوں رہتے ہیں اور کیا حکومت یہ دیکھتی ہے کہ شیلٹر ہوم چل رہے ہیں یا نہیں؟ این جی او جن کاموں کو انجام دینے کا دعوی کرتے ہیں کیا وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں حقیقی معنوں میں ادا بھی کر رہے ہیں یا نہیں۔ سچل پالنا گرہ اسکیم ، وردھا شرم اسکیم کا کام کررہے این جی او کو سرکاری پیسہ کیوں دیا جا رہا ہے؟ کیا این جی او شیلٹر ہوم کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔ یہ سوالات چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس سی ڈی سنگھ کی بنچ نے حقوق نسواں سمیت کئی عوامی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے اٹھائے۔ عدالت نے عرضی کی سماعت کے لئے اگلی تاریخ 28 نومبرمتعین کی ہے۔
Published: undefined
ایسی ہی ایک تنظیم کے خلاف شکایت کی جانچ کی وجہ سے دو سال سے چیف سکریٹری کے ذریعہ سرکاری گرانٹ روکے جانے کے خلاف داخل عرضی کو خارج کردیا ہے۔ چیف سکریٹری نے غبن کے الزام میں کئی تنظیموں کا گرانٹ روک دیا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ سرکاری گرانٹ لینے کا آئین جواز کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ گرانٹ روکنے سے متعلقہ تنظیم کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ماں وندھیاواسی مہیلا پرسچّھڑ اور سماج سیوا سنستھا دیوریا کے ذریعہ چلائے جانے والے شیلٹر ہوم میں لڑکیوں کے جنسی استحصال کے معاملے کی جانچ ایس آئی ٹی کر رہی ہے۔ اس معاملے میں کئی تھانوں کی پولیس افسران کو معطل بھی کیا گیا ہے۔ پولیس پرلاپرواہی کا الزام ہے۔
ہائی کورٹ نے ایسی ہی ایک معاملے میں معطل دیوریا کے کوتوالی انچارج کی عرضی پر سماعت سے انکار کرتے ہوئے اسے خارج کردیا۔ اس عرضی میں عرضی گذار کا کہناتھا کہ اس کی تعیناتی اس واقعہ کے بعد ہوئی ہے۔ اس لئے اسے قصور وار نہیں گردانہ جا سکتا۔ اس پر عدالت نے عرضی گذار کو 15 دن میں میں آئی جی گورکھپور کو اپنے موقف کے رکھنے کی اجازت دی ہے اور کہا کہ آئی جی اس کے موقف پر چھ ہفتوں میں فیصلہ کریں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز