صرف ایک سال کے اندر ہی مرکز کی مودی حکومت نے مالی مینجمنٹ اور معیشت کو چاروں خانے چت کر دیا ہے۔ حالانکہ حکومت اپنی سطح سے ہر کوشش کرتی رہی کہ اسے جہاں سے بھی پیسہ مل سکتا ہے، نکالے، لیکن اس نے جتنی کوششیں کیں، مصیبتیں اتنی ہی بڑھتی چلی گئیں۔ اب حکومت کی نظر جی ایس ٹی شرح پر ہے، اور اگر جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ کیا گیا تو طے مانیے کہ ملک بحران کے بہت ہی برے دور میں پھنس جائے گا۔
Published: undefined
گزشتہ کچھ وقت کے دوران جی ایس ٹی شرحوں سے کھلواڑ کرنا وزارت مالیات کا شاید سب سے پسندیدہ کام رہا ہے، لیکن جیسے کہ خبریں آ رہی ہیں کہ جی ایس ٹی کی بنیادی 5 فیصدی کی شرح کو 10-9 فیصد تک بڑھایا گیا تو ایک بہت بڑا بحران سامنے کھڑا ہو جائے گا۔ اس سے نہ صرف مہنگائی میں نئے سرےسے اضافہ ہوگا، بلکہ صارف میں بھی کمی آئے گی اور حکومت کو ملنے والے خزانہ میں زبردست کمی دیکھنے کو ملے گی۔
Published: undefined
لیکن حکومت خود ہی یہ بحران کھڑا کر رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس میں تخفیف سے پہلے ہی معیشت پر 1.45 لاکھ کروڑ کا بوجھ بڑھا ہے، ایسے میں حکومت کو لگتا ہے کہ جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ سے اسے ہر سال ایک لاکھ کروڑ کی اضافی آمدنی ہوگی۔ اتنا ہی کافی نہیں تھا کہ ہفتہ کو وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے اشارہ دیا کہ وہ نجی انکم ٹیکس کی شرحوں میں تخفیف کے بارے میں بھی غور کر رہی ہیں۔
Published: undefined
جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ کو ایک دفع ضروری بھی مان سکتے ہیں کیونکہ کم از کم پانچ ریاستی حکومتیں ان کے حصے کا پیسہ نہ ملنے کو لے کر مرکز کے خلاف مقدمہ کرنے کی تیاری کرتی نظر آ رہی ہیں۔ مرکز پر کیرالہ، دہلی، راجستھان، پنجاب اور مغربی بنگال کا 12000 کروڑ روپیہ بقایہ ہے، لیکن جی ایس ٹی خزانہ میں کمی کے سبب مرکز کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہ وقت سے ان ریاستوں کو بقایہ چکا پائے۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بقایہ 20 ہزار کروڑ تک پہنچ سکتا ہے، اس سے مرکز پر اور بھی زیادہ مالی دباؤ بنے گا۔
Published: undefined
اس سب کو ایک ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وزیر مالیات کی دلچسپی معیشت کو ٹھیک کرنے سے زیادہ خبروں میں بنے رہنے میں ہے۔ یہ خبریں اچھی ہیں یا بری ہیں، اس سے شاید انھیں فرق نہیں پڑتا، لیکن یہ ضرور صاف ہو جاتا ہے کہ ہم بے حد سنگین پریشانی سے دو چار ہیں۔
Published: undefined
اس سال کے خزانہ کے ہدف بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور خطرے کی گھنٹی زور سے بج رہی ہے۔ حکومت پہلے 6 مہینے میں اپنے خزانہ کے ہدف کا صرف 37 فیصد ہی حاصل کر پائی ہے، جب کہ اسے 40 فیصد سے تو اوپر ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر کارپوریٹ ٹیکس میں کی گئی تخفیف کو سامنے رکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ پورے سال کا ہدف پورا ہونا مشکل ہے۔ اور یہ ہدف تبھی پورا ہوگا جب حکومت خرچ میں تخفیف کرے۔
Published: undefined
ویسے اس محاذ پر خرچ کٹوتی سے اشارہ ملنے لگے ہیں۔ مثلاً پی ایم کسان یوجنا کے لیے اس سال کل 75 ہزار کروڑ کا انتظام تھا، لیکن 30 نومبر تک صرف 36 ہزار کروڑ ہی خرچ کیے گئے ہیں۔ اس طرح پورے سال میں سا کے 50 سے 55 ہزار کروڑ تک ہی پہنچنے کا امکان ہے۔ اسی طرح دیگر سرکاری منصوبوں میں ہونے والے خرچ میں بھی تخفیف کی تیاری ہے۔
Published: undefined
حکومت دباؤ میں ہے اور خزانہ میں ہوئی کمی کو جی ایس ٹی شرحیں بڑھا کر پورا کرنا چاہتی ہے۔ بھلے ہی حکومت کے پاس یہ واحد راستہ بچا ہو، لیکن اس سے عام لوگوں پر جو بوجھ بڑھے گا، اس سے معیشت بری طرح متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ساتھ ہی خزانہ میں اور بھی کمی ہونے کے آثار ہیں۔
Published: undefined
پہلے ہی صارف میں کمی سامنے آئی ہے، اور جی ایس ٹی شرحوں میں اضافہ سے پروڈکٹس کی فروختگی میں مزید گراوٹ آنے کے آثار ہیں۔ اس کا اثر فوڈ اینڈ سروسز دونوں پر پڑے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹیکس شرحیں بڑھانے سے معیشت کی رفتار کم ہوگی؟ جولائی 2017 میں حکومت نے اثرانداز ٹیکس شرح 14.4 فیصد سے گھٹا کر 11.6 فیصد کیا تھا۔ اس شرح پر بھی لوگوں نے خریداری نہیں کی، ایسے میں اگر شرحیں بڑھتی ہیں تو خریداری میں اضافہ کیسے ہوگا، یہ سب سے بڑا سوال ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined